خدا ترس عورت کو ڈوبا ہوا بچہ کیسے ملا؟
حضرت سیدنا عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ملک کا بادشاہ بہت ظالم اور کنجوس تھا۔ا س نے اپنے ملک میں یہ اعلان کردیا کہ” کوئی بھی شخص کسی فقیر یامسکین پر کوئی چیز صدقہ نہ کرے، کوئی کسی غریب کی مدد نہ کرے۔اگر کسی نے ایسا کیا تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دو ں گا۔”
یہ خبر سن کر لوگوں میں سنسنی مچ گئی ،اب ہر کوئی صدقہ دینے سے ڈرنے لگا ۔ ایک دن ایک فقیر مجبور ہو کر ایک عورت کے پاس آیا اور اس سے کہا: ”اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر مجھے کوئی چیز کھانے کے لئے دو۔” تو وہ عورت بولی:” ہمارے ملک کے بادشاہ نے اعلان کیا ہے کہ جوکوئی کسی کو صدقہ دے گا اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا، اب میں تمہیں کس طر ح کوئی چیز دوں ؟” فقیر نے کہا : ”تم مجھے اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر کوئی کھانے کی چیز دے دو۔” عورت کو اس فقیر پربہت ترس آیا اور اس نے بادشاہ کی ناراضگی اور سزا کی پرواہ کئے بغیر اللہ عزوجل کی رضا کے لئے اس فقیر کو دو روٹیاں دے دیں۔ فقیر روٹیاں لے کر دعائیں دیتا ہوا وہاں سے چلاگیا۔
جب بادشاہ کو معلوم ہو اکہ فلاں عورت نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے تو اس نے عورت کی طرف اپنے سپاہی بھیجے اور عورت کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔ کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے اپنی والدہ سے کہا :” مجھے کسی ایسی عورت کے بارے میں بتا ؤ جو سب سے زیادہ حسین وجمیل ہو تا کہ میں اس سے شادی کروں۔”تو اس کی والدہ نے اسے بتایا : ”ہمارے ملک میں ایک ایسی خوبصورت اور بے مثال حسن وجمال کی پیکر عورت رہتی ہے کہ میں نے آج تک اس جیسی حسین وجمیل عورت نہیں دیکھی لیکن اس میں ایک بہت بڑا عیب ہے،با دشاہ نے پوچھا :” اس میں کیا عیب ہے ؟” اس کی والدہ نے جواب دیا:” اس کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔”
بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ فلاں عورت کو میرے پاس حاضر کیا جائے۔ چند سپاہی گئے اور اسی عورت کو بادشاہ کے پاس لے آئے جس کے ہاتھ فقیر کو روٹیاں دینے کی وجہ سے کاٹ دئیے گئے تھے ۔جب بادشاہ نے اس عورت کو دیکھا تو اس کے حسن وجمال نے بادشاہ کوحیرت میں ڈال دیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا :” کیا تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟ ”عورت نے کہا: ”مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہوتومجھے منظور ہے ۔”چنانچہ ان دونوں کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی، جشن منایا گیا اور اس طر ح وہ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔
بادشاہ کی دوسری بیویوں کو اس عورت سے حسد ہوگیا او روہ دن رات حسد کی آگ میں جلنے لگیں،ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ بادشاہ اب ہمیں اِتنی وقعت نہیں دیتا جتنی اس غریب ونادار نئی دلہن کو دیتا ہے ۔
چنانچہ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتیں کہ کسی طر ح اس نئی دلہن کو بادشاہ کی نظروں سے گرا دیا جائے لیکن وہ اپنے اس مذموم اِرادے میں کا میاب نہ ہوسکیں۔پھر اچانک بادشاہ کسی محاذ پر روانہ ہوگیا اور وہاں اسے کافی دن دشمنوں سے لڑنا پڑا۔ بادشاہ کی بیویوں کو یہ بہت اچھا موقع مل گیا۔ انہوں نے بادشاہ کو خط لکھا کہ تمہارے پیچھے سے تمہاری نئی دلہن نے تمہاری عزت کو داغ دار کر دیا ہے او روہ بدکارہ ہو گئی ہے اور اس بد کاری کے نتیجہ میں اس کے ہا ں بچہ بھی پیدا ہو اہے۔ جب با دشاہ کو یہ خط ملا تو وہ آگ بگولا ہوگیا۔ اس نے فوراََاپنے قاصد کو یہ پیغام دے کر اپنی والدہ کے پاس بھیجا کہ اس بدکارہ عورت کو اس کے بچے سمیت میرے ملک سے نکال دو، اس کے گلے میں کپڑا با ندھ کر بچہ اس میں ڈال دو اور انہیں کسی جنگل میں چھوڑ دو ۔
جب اس کی والدہ کو یہ پیغام ملا تو اس نے ایسا ہی کیا او راس کے گلے میں کپڑا ڈال کر بچہ ا س میں ڈال دیا پھر اسے ملک سے دور ایک جنگل میں چھوڑ دیا گیا۔اب وہ بیچاری تنہا جنگل میں رہ گئی لیکن اسے اپنے رب عزوجل سے کسی قسم کا کوئی شکوہ نہ تھا ،وہ تو اس کی رضا پر راضی تھی۔ وہ بیچاری اسی طر ح جنگل میں گھومتی رہی ،پیاس کی شدت نے اسے پریشان کر رکھا تھا با لآ خر اسے دور ایک نہر نظر آئی وہ نہر پر گئی اورجیسے ہی پانی پینے کے لئے جھکی تو اس کا بچہ گہرے پانی میں جاگرا اور ڈوبنے لگا۔
جب عورت نے اپنے بچے کو ڈوبتا دیکھا تو وہ رونے لگی۔اتنے میں اس کے پاس دو خوبصورت نوجوان آئے اوراس سے پوچھا:”تم کیوں رو رہی ہو؟ ”اس نے کہا: ”میں پانی پینے کے لئے جھکی تو میرا بیٹا اس نہر میں گر کر ڈوب گیا ،میں اسی کے غم میں رو رہی ہوں۔ ”ان خوبصورت نوجوانوں نے پوچھا :” کیا تُو چاہتی ہے کہ ہم تیرے بچے کو نکال لائیں؟” عورت نے بےتاب ہوکر کہا :” ہاں! میں چاہتی ہوں کہ اللہ عزوجل مجھے میرا بچہ واپس لوٹا دے۔ ”
ان نوجوانوں نے دعا کی او راس کا بچہ نکال کر اسے دے دیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: ”اے رحم دل عورت !کیا تُو چاہتی ہے کہ تیرے ہا تھ تجھے واپس کر دیئے جائیں اور تُو ٹھیک ہوجائے ؟”اس نے کہا:” ہاں! میں چاہتی ہوں۔” چنانچہ ان دونوں نوجوانوں نے دعا کی اور اس کے دونوں ہاتھ بالکل ٹھیک ہوگئے ۔عورت نے اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا اور حیران کُن نظروں سے ان نوجوانوں کو دیکھنے لگی جن کی بر کت سے اسے ڈوبا ہوا بچہ بھی مل گیا اور اس کے ہاتھ بھی اسے لوٹا دیئے گئے ۔ پھران نوجوانوں نے پوچھا: ”اے عظیم عورت! کیا تُو جانتی ہے کہ ہم کون ہیں؟ ”عورت نے کہا:”میں آپ کو نہیں پہچانتی۔” عورت کا یہ جواب سن کر انہوں نے کہا:” ہم تیری وہی دو روٹیاں ہیں جوتُو نے ایک مجبور سائل کو دی تھیں۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو!سبحان اللہ عزوجل !اس حکایت میں ہمارے لئے کیسی کیسی نصیحتیں ہیں کہ اللہ عزوجل کی رضا کی
خاطر جو نیک عمل کیا جاتا ہے وہ کبھی رائیگا ں نہیں جاتا ، آخرت میں تو اس کااَجر ملتا ہی ہے لیکن دنیا میں بھی اس کے ثمرات ظاہر ہوتے ہیں، جس طرح اس عظیم عورت کے ساتھ ہواکہ دنیا ہی میں اس کو نیکی کا بدلہ مل گیا۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہے کہ اپنا ہر عمل اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر کریں۔ جو عمل اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر کیا جاتا ہے وہ کبھی رائیگا ں نہیں جاتا ۔اللہ عزوجل اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، وہ اپنی رحمت سے کسی کو مایوس نہیں کرتا۔ اس حکایت سے یہ بھی درس ملا کہ جوکسی کے ساتھ بھلا کرتا ہے اس کے ساتھ بھی بھلا ہوتا ہے،اس کی بھر پور مدد کی جاتی ہے اور اسے مایوس نہیں کیا جاتا۔ اللہ عزوجل ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں پر خوب شفقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی تو فیق عطا فرما ئے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)