خلوت نشینی اور علم

خلوت نشینی اور علم

تنہائی و عزلت نشینی کو اپنے اوپر لازم کر کو،کیوں کہ
اس سے خیر کے چشمے پھوٹتے  ہیں۔ برے اور بے
فیض دوستوں کی صحبت سے کلیۃً اجتناب کرو،بہتر تو یہی ہے کہ کتابوں کواپنادوست،  اور اَسلافِ کرام کی سیرتوں کو اپنا آئیڈیل بناؤ۔
ایسے علم و فن کو اپنے گرد نہ بھٹکنے دو جس سے پہلوں کی عظمتوں پر آنچ آتی ہو، اور
علم و عمل کو کارآمد بنانے میں اَرباب فضل و کمال کی سیرت و سوانح سے روشنی حاصل
کرو،اس سے کم پر کبھی راضی نہ ہونا۔دیکھو کسی شاعر نے کیسے پتے کی بات کہی ہے  :
وَ لم ارَ في عُيوب الناس شيئًا
كنقص القادرين علَی التَّمَام
یعنی کام کو بحسن و خوبی انجام دینے پر قدرت رکھنے
والوں کی کوتاہی کے مثل میں نے لوگوں میں کوئی عیب نہیں دیکھا۔
پسر ارجمند! 
اس بات کو دِل کی تختی پر  بٹھا لے
کہ نورِ علم نے نہ معلوم کتنے بے نشانوں کے گھر روشن کر دیے ہیں۔ دنیائے تاریخ میں
ایسے اَرباب علم کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے حسب و نسب کا کوئی اَتاپتا نہیں اور حسن
و جمال کی انھیں ہوا تک نہیں لگی،لیکن وہ قوم کے اِمام ہوئے۔ شاید تمہیں معلوم نہیں
کہ حضرت عطا بن ابی رباح (م
۱۱۴ھ) کتنے سیاہ فام اور مکروہ خلقت
تھے!۔
ایک مرتبہ خلیفہ وقت سلیمان بن عبد الملک (م۹۹ھ)
اپنے دو صاحبزادوں کے ساتھ ان کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو وہ ان سے دین کے مسائل
پوچھنے لگے تو انھوں نے ان سے بات چیت توکی مگر اخیر وقت تک اپنا چہرہ اُن سے
چھپائے رکھا۔ چنانچہ خلیفہ سلیمان کو اپنے بچوں سے کہنا پڑا: چلوا َب چلتے ہیں کہیں
ایسا نہ ہو کہ تمہارے طلب علم کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جائے۔ میں اس سیاہ فام غلام
کے سامنے اپنی ذلت بھول نہیں سکتا۔
اور وقت کی عظیم و جلیل ہستی حضرت حسن بصری  ۱۱۰ھ)کون
تھے؟ ایک غلام ہی تو۔ یوں ہی ابن سیرین (م
۱۱۰ھ)،شیخ
مکحول (م
۱۱۲ھ) اور بہت سے دیگر اکابر،مگر انھیں جو عزت و وقار ملا
اور لوگوں کے دل میں اُن کی عظمت  و محبت کی
جو شمع فروزاں ہوئی تواس میں بس اُن کے علم و عمل اور تقویٰ و طہارت کا دخل تھا۔

(اپنے لختِ جگر کے لیے
مصنف ابن جوزی
مترجم علامہ محمدافروز القادری چریاکوٹی 
Exit mobile version