تاریخ کا زرّین ورق

تاریخ کا زرّین ورق 

 حضرت خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور شاعرہ ہیں ، اپنی قوم کے چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ آکر مسلمان ہوئیں ، ابن اثیر کہتے ہیں کہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی عورت نے ان سے شعر نہیں کہا نہ ان سے پہلے نہ ان کے بعد ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں 16؁ھ میں قادسیہ کی لڑائی ہوئی
جس میں حضرت خنساء اپنے چاروں بیٹوں سمیت شریک ہوئیں ، لڑکوں ایک دن پہلے بہت نصیحت کی اور لڑائی کی شرکت پر بہت ابھارا کہنے لگیں کہ میرے بیٹو ! تم اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے ہو اور اپنی ہی خوشی سے تم نے ہجرت کی ،
 اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ جس طرح تم ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہو اسی طرح ایک باپ کی اولاد ہو، میں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا نہ میں نے تمہاری شرافت میں دھبہ لگایا
 نہ تمہارے نسب کو خراب کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے مسلمانوں کے لئے کافروں سے لڑائی میں کیا کیا ثواب رکھا ہے ؟ تمہیں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے
 کہ آخرت کی باقی رہنے والی زندگی دنیا کی فنا ہونے والی زندگی سے کہیں بہتر ہے ، اللہ جل شانہٗ کا پاک ارشاد ہے :
یا ایھا الذین آمنوا صبروا و رابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون ۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اے ایمان والو تکالیف پر صبر کرو ( اور کفار کے مقابلہ میں ) صبر کرو اور مقابلہ کے لئے تیار رہو تاکہ تم پورے کامیاب رہو ( بیان القرآن ) لہٰذا کل صبح کو جب تم صحیح و سالم اٹھو تو بہت ہوشیاری سے لڑائی میں شریک ہونا اور اللہ تعالیٰ سے دشمنوں کے مقابلے میں مدد مانگتے ہوئے بڑھو اور جب تم دیکھو کہ لڑائی زور پر آگئی اور اس کے شعلے بھڑکنے لگے تو اس کی گرم آگ میں گھس جانا اور کافروں کے سردار کا مقابلہ کرنا ان شاء اللہ جنت میں اکرام کے ساتھ کامیاب ہوکر رہو گے ، چنانچہ جب صبح کو لڑائی زوروں پر ہوئی لڑکوں میں سے ایک ایک نمبروار آگے بڑھتا تھا ، اور اپنی ماں کی نصحیت کو اشعار میں پڑھ کر اُمنگ پیدا کرتا تھا اور جب شہید ہوجاتا تھا تو دوسرا بڑھتا تھا ، اور شہید ہونے تک لڑتا رہتا تھا بالآخر چاروں شہید ہوئے اور جب ماں کو چاروں کے مرنے کی خبر ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے ان کی شہادت سے مجھے شرف بخشا مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس کی رحمت کے سایہ میں ان چاروں کے ساتھ میں بھی رہوں گی ۔ ( اسد الغابہ )۔
ایسی بھی اللہ کی بندی مائیں ہوتی ہیں جو چاروں جوان بیٹوں کو لڑائی کی تیزی اور زور میں گھس جانے کی ترغیب دیں اور جب چاروں شہید ہوجائیں اور ایک ہی وقت میں سب کام آجائیں تو اللہ کا شکر ادا کریں ؟ ہمارے ماں بہنوں کی طرف دیکھئے کبھی بھی گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے ، ہر وقت ان کی دعا یہی رہتی ہے کہ یا اللہ میرے بچہ کو زندہ رکھ ، فقیر ہی بنا کر سہی ، ماں کی دعا کبھی خالی جاتی نہیں اسی لئے آج کل کے مسلمان سب فقیر بن کر دربدر پھر رہے ہیں ، ہمارے ماں بہنوں کو چاہئے کہ بھولے ہوئے سبق یاد کریں اور تعلیمات اسلام پر خود بھی باقاعدہ عمل کریں اور اپنے بچوں اور بھائیوں کو بھی عمل کرنے کی ترغیب دلائیں ، حضرت امام بخاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو درجہ آج حاصل ہے وہ ان کو ان کے مہربان ماں اور بہن کے طفیل ہی سے نصیب ہوا ، کیا آپ بھول گئے کہ صرف بچہ ( چودہ ) سال کی عمر میں حضرت امام بخاری رضی اللہ عنہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جب گھر چھوڑتے ہیں تو ان کے ساتھ کون تھے ؟ ان کے مفلس الحال ماں اور بہن ، کیونکہ راستے میں سوائے پتوں اور کچھ کھانے کو نہ تھا ، آخر حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہ کو جو درجہ آج حاصل ہے کیااس کا سبب ان کے مہربان ماں نہیں ہیں؟ آپ کے بیوہ ماں ہی تو تھے جنہوں نے چالیس دینار بغل کے نیچے سی کر سچ بولنے کی ہدایت کی تھی ۔
کاش ہمارے بھی ماں بہنیں اپنا کام انجام دیتے ۔
Exit mobile version