حکایت نمبر491: خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کی حکمتِ عملی
ابو محمد عبداللہ بن حمدون کا بیان ہے، ایک دفعہ خلیفہ مُعْتَضِد باللہ شکار کے لئے گیا سپاہی ابھی پیچھے تھے میں خلیفہ کے ساتھ تھا کہ اچانک قریبی کھیت کے مالک نے چیخ وپکارشروع کردی۔خلیفہ نے اسے بلاکرشورمچانے کاسبب دریافت کیاتواس نے کہا:” آپ کے لشکر کے چند سپاہیوں نے میرے کھیت سے کھِیر ے چرائے ہیں۔” خلیفہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ” مجرموں کو ہمارے سامنے پیش کرو۔” تین شخصوں کولایا گیا۔ خلیفہ نے کھیت والے سے پوچھا:” کیایہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمہارے کھیرے چُرائے ہیں؟” اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ” انہیں ہتھکڑیاں پہنا کر قید میں ڈال دو ۔” دوسرے دن خلیفہ نے تین مجرموں کو بلایا اور حکم دیا کہ” انہیں کھیرے کے کھیت میں لے جاکر قتل کردو۔” لوگوں کو اس حکم سے بڑی کوفت ہوئی کہ صرف چند کھیروں کی خاطر تین جانوں کو قتل کروایا جارہا ہے، لیکن حکمِ شاہی کے سامنے کسی کو کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی اورتین مجرموں کو قتل کردیا گیا۔ لوگوں نے خفیہ طورپراس واقعہ کی شدید مخالفت کی ،لیکن آہستہ آہستہ بات رفع دفع ہوگئی ۔کا فی عرصے کے بعد ایک رات میں خلیفہ مُعْتَضِد باللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھاکہ اس نے مجھ سے کہا:” اگر لوگ ہمارے متعلق کوئی بری بات کہتے ہیں تو بتاؤ تاکہ ہم اپنی برائی کا ازالہ کریں۔” میں نے کہا: ”امیرالمؤمنین میں ایسی کوئی برائی نہیں۔”خلیفہ نے کہا:” میں تجھے قسم دیتا ہوں سچ سچ بتاؤ ۔”میں نے کہا:” کیا آپ مجھے امان دیتے ہیں؟” کہا:” ہاں! تمہیں امان ہے، بتاؤ! مجھ میں کیا برائی ہے ؟”میں نے کہا:”عالی جاہ !آپ خون بہانے میں بہت جلدی کرتے ہیں، یہ بہت بری بات ہے ۔”خلیفہ نے کہا:” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !جب سے
میں خلیفہ بنا ہوں کسی ایک کو بھی ناحق قتل نہیں کیا ۔”
یہ سن کر میں خاموش ہوگیاتو خلیفہ نے کہا:” اور بتاؤ ۔”میں نے کہا:”لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے خادمِ خاص احمد بن ابوطیب کو قتل کروا دیا حالانکہ اس کی کوئی خیانت ظاہرنہ ہوئی تھی۔” خلیفہ نے کہا :”اس نے مجھے کفر واِلحاد کی دعوت دی تھی۔ اب تم بتاؤ کیا میں نے اسے قتل کرواکر برا کام کیا ہے ؟میں نے اسے اس کی باطل دعوت کی سزا دی تھی اس کے علاوہ کوئی اور برائی بتاؤ جو مجھ سے سرزد ہوئی ہو۔” میں نے کہا:”لوگ اُن تین شخصوں کے قتل کی وجہ سے آپ سے بیزار ہے جنہیں آپ نے صرف چند کھیروں کے بدلے قتل کروا دیا تھا۔”خلیفہ نے کہا :”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !قتل ہونے والے تینوں شخص وہ نہیں تھے جنہوں نے کھیرے چرائے تھے بلکہ قتل ہونے والے توخطرناک ڈاکوتھے، انہوں نے فلاں جگہ چوری کی تھی، فلاں جگہ ڈاکہ ڈالا تھا، وہ تو بدترین مجرم تھے، یہ علیحدہ بات ہے کہ انہیں کھیت میں قتل کیا گیا ۔بات دراصل یہ ہے کہ ” جب کھیت کے مالک نے ان کی شکایت کی اور تین سپاہیوں کو پکڑوادیا تومیں نے انہیں قید میں ڈالوادیااور دوسرے دن تین ڈاکوؤں کو کھیت میں لے جاکر قتل کروا دیا اور ان کے چہروں کو ڈھانپنے کا حکم دیا تاکہ لوگ انہیں پہچان نہ سکیں اور تمام فوج یہ جان لے کہ جب کھیرے چوری کرنے کے جرم میں قتل کر دیا جاتا ہے تو بڑے جرموں کی کتنی دردناک سزا ملے گی، میں نے ظلم و زیادتی روکنے کے لئے یہ طریقہ اپنایا تھا ۔باقی وہ تینوں جنہوں نے کھیرے چرائے تھے وہ ابھی تک قید میں موجود ہیں۔” یہ کہہ کر خلیفہ نے ان تینوں کو بلوایا قید میں رہنے کی وجہ سے ان کی حالت تبدیل ہوچکی تھی ۔ خلیفہ نے ان سے کہا : ”بتاؤ تمہیں قید میں کیوں ڈالا گیا؟”کہا ہمیں چند کھیروں کی چوری کے جرم میں قید کردیا گیا تھا۔” خلیفہ نے کہا:”اگر میں تمہیں چھوڑ دوں تو کیا تم اپنی سابقہ غلطیوں سے تائب ہوجاؤ گے ؟”سب نے بیک زبان کہا:”جی ہاں۔” یہ سن کرخلیفہ نے انہیں چھوڑدیااور بہت سے تحائف دیئے اور ان کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کردیا ۔کچھ ہی دنوں میں خلیفہ کی یہ بات سارے شہر میں پھیل گئی اور خلیفہ پر ناحق قتل کرنے کی جو تہمت تھی وہ دور ہوگئی اور حقیقت واضح ہوگئی ۔
(اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کی مغفرت فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)