حکایت نمبر443: خائف نوجوان کی انوکھی موت
حضرتِ سیِّدُناذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :”مجھے بتایا گیا کہ یمن میں ایک عبادت گزار شخص ہے جو خائفین میں اعلیٰ مرتبہ اور مجاہدہ کرنے والوں میں بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کی یہ صفات سن کر مجھے زیارت وملاقات کا شوق ہو ا، چنانچہ، حج سے فراغت کے بعد میں” یَمن” گیاااور پوچھتا پوچھتا اس عابد کے گھر پہنچا۔وہاں دروازے کے پاس بہت سے لوگ جمع تھے وہ سب بھی زیارت وملاقات کرنے آئے تھے۔ ہمارے درمیان انتہائی کمزور ونحیف بدن اور زرد چہرے والاایک متقی وپرہیز گار جوان بھی تھا ،ایسا لگتا تھا جیسے کسی بہت بڑ ی مصیبت نے اسے موت کے قریب پہنچادیا ہے۔
کچھ دیر بعد دروازے سے ایک بزرگ آیا اور نمازِجمعہ کے لئے مسجد کی طرف چل دیا۔سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! یہی وہ پرہیز گار وعبادت گزار شخص تھا جس کی ولایت کے ڈنکے دنیا بھر میں بج رہے تھے۔ ہم بھی اس کے پیچھے چل دیئے اورایک جگہ اس کے گرد جمع ہوگئے تاکہ اس سے گفتگو کریں ۔اتنے میں وہ کمزور نوجوان آیااور سلام کیا۔ بزرگ نے اسے خوش آمدید کہا اور بڑی گرم جوشی سے ملاقات کی۔ نوجوان نے کہا :”اے شیخ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ جیسے لوگوں کو دلوں کی بیماری کا طبیب اور گناہوں کے درد کا مُعالِج بنایا ہے۔ مجھے بھی ایک بہت گہرا زخم ہے جوبہت پھیل چکا ہے، اب میری بیماری عُروج کو پہنچ چکی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ
آپ پر رحم فرمائے! اگر مناسب سمجھیں تو اپنے مرہم سے میرے زخموں کا علاج فرما دیجئے اور مجھ پر احسان فرمایئے۔” یہ سن کر بزرگ نے اپنے عصا سے ٹیک لگائی اور کہا:” پوچھو! کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ بتاؤ! اصل مسئلہ کیا ہے؟” کہا: ”حضور!یہ ارشاد فرمائیے کہ خوف کی علامت کیا ہے؟” فرمایا : ”اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف تجھے ہر خوف سے نجات دے دے، اس کے علاوہ تجھے کسی کا خوف نہ رہے ۔”یہ سن کر نوجوان درد بھری آہیں بھرنے لگا ،پھر بے ہوش ہو کر گرپڑا۔ جب افاقہ ہو ا توا پنے ہاتھ سے چہرہ صاف کیااور کہا :” اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پر رحم فرمائے! یہ بتایئے کہ بند ہ خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ میں کب پختہ ہوتا ہے؟ اسے خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ میں درجۂ کمال کب نصیب ہوتا ہے ؟”فرمایا:” جب وہ دنیا میں اپنے آپ کومریض کی طرح رکھے اور بیماری کے خوف سے ہر قسم کے کھانے سے اپنے آپ کو بچائے، مرض کے طویل ہوجانے کے خوف سے دوا کی کڑواہٹ برداشت کرے ۔” نوجوان نے پھر ایک درد بھری چیخ ماری اور منہ کے بَل گر کر بے ہوش ہوگیا۔ جب ہوش آیا تو کہا:”حضور! مجھ پر نرمی فرمایئے۔ بزرگ نے کہا: ” پوچھو! جو پوچھنا ہے۔”عرض کی:”اللہ رَبُّ العِزَّت سے محبت کی علامت کیا ہے ؟”
یہ سن کر اس بزرگ پرکپکپی طاری ہوگئی پھر روتے ہوئے کہا:”میرے دوست ! بے شک درجۂ محبت بہت اعلیٰ درجہ ہے۔” نوجوان نے کہا: ”حضور!میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس کے متعلق کچھ بتائیں ۔” فرمایا :” بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرنے والوں کے دل محبت کی وجہ سے چاک ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دلوں کے نورسے خالقِ کائنات جَلَّ جَلَالُہٗ کی عظمت وجلال کی طرف نظر کرتے ہیں۔ ان کے اجسام تو دنیا میں ہوتے ہیں لیکن روحیں پردوں میں ہوتی ہیں۔ وہ امور کا مشاہدہ علم ُ الیقین کے ساتھ کرتے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ سے شدید محبت کی وجہ سے جتنا ہوسکے ہر لمحے اس کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ جنت کے حصول یا دوزخ سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ خالص رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے اعمال کرتے ہیں۔” بس یہ سننا تھا کہ وہ نوجوان تڑپ کر زمین پر گرا اور روتے روتے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی ۔ بزرگ نے اس کی پیشانی اورہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا:”یہی حالت خائفین کا میدان ،مجاہدہ کرنے والوں کی راحت ہے اورانہیں اسی حالت میں سکون ملتا ہے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)