کشتی بنانے والاکیسے ہلاک ہوا۔۔۔۔۔۔؟
راہب نے کہا:”مشہورہے کہ کسی شہرمیں ایک بڑھئی رہتاتھا۔وہ روزانہ ایک درہم کماتا،آدھادرہم ا پنے بوڑھے والد، بیوی اوردوبچوں پرخرچ کرتااورآدھاسنبھال کررکھ لیتا۔عرصہ درازتک اسی طرح محنت ومزدوری کرکے وہ اپنے گھرکانظام اَحسن طریقے سے چلاتارہا۔ایک دن اس نے اپنی جمع کردہ رقم شمارکی تووہ سو(100)دینارسے کچھ زائدتھی۔اس نے کہا: ”میں توبہت خسارے میں رہا،اگرمیں کشتی تیارکرکے تجارت کرتاتوآج خوب مال دارہوتا،اب مجھے کشتی بنانی چاہے۔” لہٰذااس نے اپناارادہ اپنے والد پرظاہرکیاتواس نے کہا:”اے میرے بیٹے!ہرگزیہ کام نہ کرنا،مجھے ایک ستارہ شناس ( ستا ر و ں کاعلم رکھنے والے)نے بتایا تھاکہ تیرایہ بیٹاسمندرمیں غرق ہوکرمرے گااوریہ اس وقت کی بات ہے جب تُو پیدا ہوا تھا۔” بڑھئی نے کہا :” کیااس نے یہ بتایا تھاکہ مجھے مال ودولت ملے گا؟”باپ نے کہا:”ہاں!اسی لئے تومیں نے تجھے تجارت سے منع کرکے ایساکام تلاش کیاجس کے ذریعے روزانہ اجرت ملتی رہے۔”بڑھئی نے کہا:”ستارہ شناس کے قول کے مطابق اگرمجھے مال ملے گاتویہ اسی صو رت میں ممکن ہے کہ میں سمندری تجارت کروں۔” باپ نے کہا:میرے بچے!تُواپنے اس ارادے سے بازآجامجھے خوف ہے کہ تُوہلاک ہو جائے گا۔” بیٹے نے کہا:” تجارت کے ذریعے مجھے مال توضرورحاصل ہوگااگرمیں زندہ رہاتوبقیہ عمرخیرسے گزرے گی ،ا گر مر گیا تواپنی اولادکے لئے بہت سی دولت چھوڑ جاؤں گا۔”باپ نے کہا:”میرے بیٹے!اولادکی وجہ سے اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈال۔” بیٹے نے کہا:”خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم !میں ہرگزاپنی رائے تبدیل نہ کروں گا،میں تجارت ضرورکروں گا ۔ ‘ ‘ باپ مجبور ہو کر خاموش ہو گیا ۔بڑھئی نے کشتی تیارکرکے اسے خوب سجایاپھراس میں کئی قسم کاسامانِ تجارت رکھ کرسفرپرروانہ ہوگیا ۔ ایک سال بعدجب واپس آ یا تو اس کے پاس سو(100) قنطارسونے جتنی رقم موجودتھی۔بیٹے کوصحیح سلامت دیکھ کرباپ نے اللہ تعالیٰ کا شکراداکیااوراس کے لائے ہوئے مال کی تعریف کرتے ہوئے کہا:”میں نے نذرمانی تھی کہ اگرمیرابیٹااس سفرسے سلامتی کے ساتھ واپس آگیاتومیں اس کی بنائی ہوئی کشتی کوآگ لگادوں گا۔”بیٹے نے کہا:”اباجان!آپ نے میری ہلاکت اورمیرے گھر کی بربادی کاارادہ کرلیاہے۔”باپ نے کہا:میرے بیٹے !میں نے یہ ارادہ تمہاری زندگی اورتمہارے گھرکی تادیرسلامتی کے لئے کیاہے ۔ معاملات کومیں تجھ سے کہیں زیادہ جانتاہوں۔میں دیکھ رہاہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے وسعت دی ہے اب تجھے چاہے کہ اس کی رضاوالے کام کراوراس کاشکربجالاکہ ا سنے نے تجھے مفلسی سے بچاکرامیرترین شخص بنادیاہے۔اب تُو اس کی
خوب عبادت کرمیں تیرے بدن کی سلامتی چاہتاہوں او رمجھے کوئی غرض نہیں ۔تُومیری بات مان لے۔”
بیٹے نے کہا: ”میں چنددن کے لئے سفرپرجاؤں گااورجلدہی بہت زیادہ نفع لے کرآؤں گا۔”یہ کہہ کربڑھئی دوبارہ سفر پرروانہ ہوگیا۔ جب واپس آیاتواس کے پاس پہلے سے کئی گنازیادہ مال تھا۔بڑھئی نے اپنے باپ سے کہا:” کیاخیال ہے اگر میں نے آپ کی بات مانی ہوتی توکیاآج مجھے اتنی دولت ملتی ؟”باپ نے کہا :” میر ے بچے!میں دیکھ رہاہوں کہ تُواپنے غیرکے لئے محنت وکوشش کررہاہے ،اگرتُوجانتااورحقیقتِ حال سے واقف ہوتاتوخواہش کرتاکہ:” ا ے کاش! میرے اورمیرے اس مال کے درمیان مشرق ومغرب جتنافاصلہ ہوتا۔”بیٹے نے کہا:”اباجان!آپ یہ ساری باتیں ایک ستارہ شناس کے قول کی وجہ سے کر رہے ہیں۔میرا گُمان ہے کہ اس کایہ قول کہ” مجھے مال ملے گا” درست ہے اوریہ قول درست نہیں کہ ”میں غرق ہو کر مروں گا” ۔” یہ کہہ کربڑھئی نے دوسری کشتی بنانے کاحکم دیا۔چالیس دن میں اس کاسامانِ تجارت با لکل تیار ہو گیاتواس کے باپ نے کہا: ”میرے بیٹے !اس مرتبہ بھی مِنَّت سماجت کرناتجھے نہ روک سکے گاکیونکہ میں نے ایسی نشانیاں دیکھ لی ہیں کہ جن کی وجہ سے میرے نزدیک ستارہ شناس کی بات سچ ہوگئی ہے ۔”اتناکہہ کربوڑھاباپ اپنے بیٹے کی جدائی پرزاروقطاررونے لگا توبیٹے نے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے آپ پرفداکرے! صرف اس مرتبہ اورصبرکرلیں۔خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے صحیح و سالم واپس لوٹادیاتوزندگی بھرکبھی بھی بحری سفرنہ کروں گا۔”بوڑھے باپ نے کہا:”خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!مجھے یقین ہوچلا ہے کہ اب تُوضائع ہوجائے گا۔خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!اس مرتبہ توواپس نہیں آئے گا۔یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو۔” پھر بوڑ ھے باپ نے اس کی مِنَّت سماجت کی اورخوب روروکرسمجھایامگر اس نے اپنے بوڑھے باپ کی باتوں پرکوئی توجہ نہ دی اوردونوں کشتیوں کولے کر سفرپرروانہ ہوگیا۔جب کشتیاں بیچ سمندرمیں پہنچیں تواچانک طوفان آگیااوردونوں کشتیا ں آپس میں ٹکرا کر تباہ وبرباد ہوگئیں ۔ غرق ہوتے وقت تاجرکواپنے باپ کی باتیں یاد آرہی تھیں وہ سوچ رہاتھاکہ میں نے ا پنے باپ کی نافرمانی کیوں کی ؟لیکن اب معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل چکاتھااس طرح وہ اوراس کے تمام ساتھی مع سازوسامان سمندرمیں غرق ہو کر موت کے گھاٹ اتر گئے۔
پھر اس کابوڑھا باپ بھی چندہی دنوں میں بیٹے کی جدائی کے غم میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔بڑھئی کی ساری دولت اس کی زوجہ،بیٹی اوربیٹے میں تقسیم ہو گئی۔اس کی زوجہ نے دوسری شادی کرلی ، بیٹی اوربیٹے کی بھی شادی ہو گئی۔اوراب بڑھئی کے مال میں اس کی زوجہ(جوکہ بیوہ ہوچکی تھی) اس کانیاشوہر،اس کی بیٹی کاشوہر اور اس کے بیٹے کی بیوی بھی شریک ہوگئی ۔ہروہ مال جسے بدبخت لوگ جمع کرتے ہیں اس کا یہی انجام ہوتاہے۔”
راہب نے کہا:”مجھے ان لوگوں پرشدیدتعجب ہوتاہے جواپنے جسم سے بخل کرتے اوردوسروں پرخرچ کرتے ہیں ۔
اے انسان!تُو کم مال پر ہی گزارہ کرلے، اس سے تھوڑ ی سی تکلیف توہوگی لیکن فائدہ بہت زیادہ ہے ۔اگرتُوزیادہ مال کے پیچھے نہ پڑے گا تو منزل تک پہنچ جائے گا۔ اگرکچھ جمع ہی کرناہے تواپنی جان کے لئے ذخیرہ کر،غیروں کے لئے اپنی جان کوہلاکت میں نہ ڈال ،ورنہ تجھے بھی وہی چیزلاحق ہوگی جو”مچھلیوں کے شکاری” کولاحق ہوئی۔” پوچھا:”مچھلی کے شکاری” کوکیاچیزلاحق ہوئی؟”