Kaifi Azmi ki wafat 10 may

یوم وفات کیفی اعظمی کیفی اعظمی کے اعتراف خدمات میں حکومت ہند نے کیفیات ایکسپریس نامی ٹرین کا آغاز کیا ہے تاحال جس کی سفری سہولیات جاری ہیں
مدت کے بعد اس نے جو الفت سے کی نظر
جی خوش تو ہوگیامگر آنسو نکل پڑے
اک تم، کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہر حال چل پڑےکیفی اعظمی کے اندر کا شاعر بچپن سے زندہ تھا۔ محض گیارہ سال کی عمر سے ہی کیفی اعظمی نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا جہاں انہیں بہت داد بھی ملا کرتی تھی۔. کیفی کی ابتدائی تعلیم روایتی اردو، عربی اور فارسی پر محیط تھی۔
کیفی اعظمی صاحب کا اترپردیش کے ضلع اور شہربہرائچ سے گہرا تعلق تھا۔ شمیم اقبال خاں اور کاوش شوکتی کے ذریعہ مرتب کردہ دیوان شوق طوفان اور شاعر اور ادیب شارق ربانی کے حوالے سے کئی روزناموں میں اس کا ذکر آتا ہے کہ کیفی کے والد سید فتح حسین رضوی نانپارہ کے قریب نواب قزلباش کے تعلقہ نواب گنج میں تحصیل دار تھے اور شہر بہرائچکے محلہ قاضی پورہ میں رہتے تھے،اور اس طرح کیفی کے بچپن کے کئی سال بہرائچ کی سرزمین پر گزرے ہیں۔ اور بعد میں بھی کیفی کا بہرائچ آناجانا بنا رہا جس میں وہ اپنے بچپن کے دوستوں سے ملاقات کرتے تھے،اور شفیع بہرائچی کی دکان پر ادبی محفل کا حصہ بنتے تھے۔ جہاں بہرائچ کے مشہور شاعر وصفی بہرائچی ،جمال بابا،شوق بہرائچی ،ڈاکٹر نعیم اللہ خاں خیالی،عبرت بہرائچی ،اظہار وارثی وغیرہ شرکت کرتے تھے۔1943ء میں کیفی بمبئی اپنے ایک دوست کی دعوت پر آئے تھے۔ یہاں انہیں قریب دس سال کی جدوجہد کے بعد انہیں بالی وڈ میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔1950ء کے دہے میں ڈاکٹر منشاء الرحمٰن خان منشاء کی دعوت پر کیفی ایوت محل کے مشاعرے کے لیے بلائے گئے تھے۔ شرکت کے لیے 80 روپیے طے ہوئے۔ تاہم اسی زمانے میں کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی پیدا ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ مشاعرے میں شرکت سے قاصر تھے مگر پیشگی رقم 40 روپیے ان کی وقتیہ ضروریات کے کام آئی۔ کیفی نے منشا سے خط لکھ کر معذرت خواہی کی اور ساتھ ہی پیشگی رقم کی واپسی کا وعدہ کیا۔
کیفی بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی قابل ذکر نظموں میں عورت، اندیشہ، ٹرنک کال، حوصلہ، تبسم، مکان، بہروپی اور دوسرا بن باس شامل ہیں۔ ان کے مجموعات کلام اس طرح ہیں:آخر شب
آوارہ سجدے
سرمایہرام بن باس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقصِ دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہو گا
اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئےدھرم کیا ان کا ہے کیا ذات ہے یہ جانتا کون
گھر نہ جلتا تو انہیں رات میں پہچانتا کون
گھر جلانے کو مرا لوگ جو گھرمیں آئے
شاکاہاری ہیں مرے دوست تمہارے خنجرتم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر
ہے مرے سر کی خطا زخم جو سر میں آئے
پاؤں سریو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ نظر آئے وہاں خون کے سارے دھبے
پاؤں دھوئے بنا سریو کے کنارے سے اٹھے
رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھےراجدھانی کی فضا آئی نہیں راس مجھے
چھ دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے
کیفی اعظمی – فکروفن، ڈاکٹر شکیلہ رفعت علی، نگران ڈاکٹر افغان اللہ خاں، گورکھپور یونیورسٹی ۔گورکھپور
1990ء، کیفی اعظمی: شخصیت شاعری اور عہد، ڈاکٹر وسیم انور نگران ڈاکٹر فدا المصطفٰی، ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی۔ ساگر،
ایم فلکیفی اعظمی کی نظموں کا سماجیاتی مطالعہ، محمد اشہر انصاری، نگراں ڈاکٹرآصف ،ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی 2002ء
کیفی اعظمی کے اعتراف خدمات میں حکومت ہند نے کیفیات ایکسپریس نامی ٹرین کا آغاز کیا ہے تاحال جس کی سفری سہولیات جاری ہیں

Exit mobile version