کافر کے لیے دعائے مغفرت کا حکم

کافر کے لیے دعائے مغفرت کا حکم

جو کسی مرے ہوئے کافر کے لئے مغفرت کی دعا کرے یا کسی کافر مرتد ( 1) کو مرحوم یا مغفور یا بہشتی (2 ) کہے یا کسی ہندو مردہ کو بیکنٹھ باشی ( 3) کہے وہ خود کافرہے۔
عقیدہ۲۴: مسلمان کو مسلمان جاننا اور کافر کو کافر جاننا ضروری ہے البتہ کسی خاص آدمی کے کافر ہونے کا یا مسلمان ہونے کا یقین اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ شرعی دلیل سے خاتمہ کا حال معلوم نہ ہوجائے کہ کفر پر مرا یا اسلام پر مرا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جس نے یقینا کفر کیا ہو اُس کے کافر ہونے میں شک کیا جائے اس لیے کہ یقینی کافر کے کفر میں شک کرنا خود کافر ہونا ہے اس لیے کہ شریعت کا حکم ظاہر کے لحاظ سے ہوتا ہے البتہ قیامت میںفیصلہ حقیقت کے اعتبار سے ہوگا۔ اس کویوں سمجھو کہ کوئی کافر یہودی نصرانی ہندو مرگیا تو یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ کفر پر مرا مگر ہم کو اللّٰہ ورسول کا حکم یہی ہے کہ اُسے کافر
ہی جانیں اورکافر ہی کا سا برتاؤ اس کے ساتھ کریں، جس طرح جو ظاہراً مسلمان ہے اور اس کا کوئی قول وفعل اسلام کے خلاف نہیں ہے، تو فرض ہے کہ ہم اُسے مسلمان ہی سمجھیں، اگرچہ ہمیں اس کے خاتمہ کا بھی حال معلوم نہیں۔
عقیدہ۲۵: کفرو اسلام کے سوا کوئی تیسرا درَجہ نہیں۔ آدمی یا مسلمان ہوگا یا کافر، ایسا نہیں کہ نہ کافر ہو نہ مسلمان بلکہ ایک ضرور ہوگا۔
عقیدہ۲۶: مسلمان ہمیشہ جنت میں رہیں گے کبھی نکالے نہ جائیں گے اور کافر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے کبھی نہ نکالے جائیں گے۔

مسئلہ۲:اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کا حکم

اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کے سوا کسی اور کو سجدہ تعبدی (1 ) کفر ہے اور سجدہ تعظیمی حرام ہے۔ (2 )

________________________________
1 – وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے امر کاانکار کرے جوضروریاتِ دین سے ہو یعنی زبان سے کلمہ کفر بکے جس میں تاویل صحیح کی گنجائش نہ ہو۔یوہیں بعض افعال بھی ایسے ہیں جن سے کافر ہوجاتاہے مثلاً بت کوسجدہ کرنا،مصحف شریف کونجاست کی جگہ پھینک دینا۔ (بہارشریعت، حصہ۹ ،۲/۱۶۳)
2 – جنتی
3 – جنت میں رہنے والا۔

___
1 – یعنی عبادت کی نیت سے سجدہ کرنا۔
2 – اذا سجد لانسان سجدۃ تحیۃ لا کفر۔ (عالمگیری) اگر کسی آدمی کو سجدہ تعظیمی کیا تو کافر نہیں ہوا۔ (۱۲منہ) (الفتاوی الہندیۃ،کتاب السیر،الباب السابع فی احکام المرتدین،۲/ ۲۷۹)
3 – قال النووی (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی) : البدعۃ فی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (تہذیب الاسماء واللغات،حرف البائ،۳/ ۲۰) وقال البیضاوی (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) فی تفسیرہ: البدعۃ اختراع الشیء لا عن شیء ۔ (تفسیر البیضاوی، سورۃ البقرۃ، تحت الآیۃ:۱۱۷، ۱/ ۳۹۰) وقال الغزالی (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِیْ) : البدعۃ المذمومۃ ما یراغم السنۃ. (احیاء علوم الدین،کتاب آداب تلاوۃ القرآن،الباب الثانی،۱/ ۳۶۷) ۱۲منہ۔

Exit mobile version