حکایت نمبر394: کفن چور کی توبہ
حضرتِ سیِّدُنا ابواِسحاق فَزَاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: ”ایک شخص اکثر ہماری محفل میں آیا کرتاتھامگراس کا آدھا چہرہ ہمیشہ چُھپارہتا۔ایک مرتبہ میں نے اس سے پوچھا:” تم اپنا آدھا چہرہ چھپائے رکھتے ہو، اس کی کیا وجہ ہے ؟ مجھے اس راز سے آگاہ کرو۔”
اس نے کہا:” اگر آپ امان عطا فرمائیں تومیں اپنا معاملہ بتاتا ہوں۔ ” میں نے کہا: ”بتاؤ! اصل معاملہ کیاہے؟” اجازت ملنے پراس نے اپنی داستانِ عبرت نشان کچھ اس طرح سنائی :” میں کفن چور تھا، میں نے کئی قبروں سے کفن چُرائے۔ جب بھی کسی نئی قبر کے متعلق معلوم ہوتافوراً وہاں پہنچ کرکفن چُرا لاتا۔ ایک مرتبہ ایک عورت کا انتقال ہوا جب اسے دفنا دیا گیا تو میں رات کو قبرستان پہنچا اورقبر کھودنا شروع کی۔ جب اینٹیں ہٹا کر کفن کی ایک چادر نکالی اور دوسری چادر کھینچنے لگاتو اچانک اس عورت کے بے جان جسم نے حرکت کی اور چادر کو تھام لیا۔ میں نے کہا :”تمہارا کیا خیال ہے کہ تم مجھ پر غالب آجاؤ گی؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔” یہ کہہ کر میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیااور پوری قوت سے کفن کھینچنے لگا۔ یکایک عورت نے ایک زور دار تھپڑ میرے چہرے پر مارا۔ درد کی شدت سے میں بے قرار ہوگیااور میرے چہرے پر بہت زیادہ جلن ہونے لگی۔” یہ کہہ کر اس کفن چور نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایاتو اس کے گال پر انگلیوں کے نشان بالکل واضح تھے۔ میں نے کہا: ”اچھا،پھر کیا ہوا ؟” کہا: ” پھر میں نے چادر واپس اس عورت پر ڈال دی اور جلدی جلدی قبر پر مٹی ڈال کر برابرکردیا اور پختہ ارادہ کیا کہ جب تک زندہ رہوں گا کبھی بھی کفن نہیں چراؤں گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ میرے سابقہ گناہوں کو معاف فرمائے اور مجھے توبہ پر استقامت عطا فرمائے۔”
حضرتِ سیِّدُنا ابواِسحاق فَزَارِی علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: ”اس کفن چور کا سارا واقعہ لکھ کر میں نے حضرتِ سیِّدُنا امام اَوْزَاعِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے یہ جواب لکھ کر بھیجا :”تیرا بھلا ہو اس سے پوچھ! جو مسلمان قبلہ رُودفنائے
گئے کیا سب کے چہرے قبلہ سمت ہی تھے یا قبلہ سے پِھر چکے تھے۔” میں نے کفن چور سے جب یہ سوال کیا تو اس نے کہا: ” میں نے جن لوگوں کے کفن چرائے ان میں سے اکثر کے چہرے قبلہ سے پھر چکے تھے۔”حضرتِ سیِّدُناابو اِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزاق فرماتے ہیں: ”میں نے یہ بات لکھ کر امام اَوْزَاعِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں بھیجی تو انہوں نے جواباَ یہ تحریر بھجوائی: ”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ،اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ،اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ” اے اِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزاق! جن لوگوں کے چہرے قبلہ سے پھر چکے تھے ان کا خاتمہ سنت پر نہیں ہوا۔”اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے، ہمارا خاتمہ حضورصلَّی اللہ تعاکی علیہ وآلہ وسلَّم کی سنت پر فرمائے۔( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس داستانِ عبرت نشان میں ہمارے لئے عبرت کے بے شمار مدنی پھول ہیں۔ کتنا تشویش ناک معاملہ ہے کہ جو لوگ سنتوں سے منہ موڑلیتے ہیں، احکامِ شریعت پر عمل پیرا نہیں ہوتے اور دُنیا کو دین پر ترجیح دیتے ہیں ان کے ساتھ قبر میں انتہائی وحشت ناک معاملہ ہوتا ہے۔قبر وآخرت میں لمحہ بھر کا عذاب بھی برداشت سے باہر ہے۔ ہمارے نازک جسم جہنم کی بھڑکتی ہوئی دِلوں تک پہنچنے والی سخت آگ کا سامنا نہیں کرسکتے۔ اگر اسی طرح غفلت و معصیت بھری زندگی گزارتے رہے اور اسی حالتِ بد میں پیغامِ اَجل آ پہنچا تو بہت ذلت ورسوائی اور دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جھٹ پٹ اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لیجئے اور رو رو کر خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگ لیجئے۔ مؤمنوں پر رحم وکرم فرمانے والے نبئ کریم ، رء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سنَّتوں کو اپنا کران کے دامنِ کرم سے وابستہ ہوجائیے ۔ درود و سلام کی کثرت کیجئے اور عبادت و ریاضت کی طرف راغب ہو جایئے۔)
؎ عاصیو ! تھام لو دامن اُن کا
وہ نہیں ہاتھ جھٹکنے والے