حکایت نمبر310: کفن چور کا اِنکِشاف
حضرتِ سیِّدُنا اِبنِ حُبَیْق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ”حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن اَسْبَاط علیہ رحمۃ اللہ الجواد ایک ایسے نوجوان سے ملاقات کے لئے جاتے جو تنِ تنہا ایک جزیرے میں رہا کرتا تھا۔ دس سال تک اس نے حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن اَسْبَاط علیہ رحمۃ اللہ الجواد سے گفتگو نہ کی ۔جب کبھی دن یا رات میں آپ اس سے ملنے جاتے اسے روتا گڑ گڑاتا ہوا پاتے۔ ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے پوچھا :”اے نوجوان! کیا بات ہے؟ میں ہر وقت تجھے روتا اور گڑگڑاتا ہوا دیکھتا ہوں، آخر تم اتنا کیوں روتے ہو ؟”نوجوان نے اپنا حالِ دل بیان کر تے ہوئے کہا:” تو بہ سے قبل میں لوگوں کے کفن چُرایا کرتاتھا۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا :” جب تُو قبر کھود تا تَو مردے کو کس حالت میں پاتا ؟” کہا:” میں نے جب بھی قبر کھودی سوائے چند کے اکثر کے منہ قبلہ سے پھر ے ہوئے دیکھے ۔”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ سنا تو بہت غمگین ہوئے اور آپ کے منہ سے بے اختیا ر نکلا: ” سوائے چند کے اکثر کے منہ پھرے ہوئے تھے!”
اس خبر سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دماغ پر بہت اثر ہوا حتیٰ کہ صدمے کی وجہ سے آپ کی عقل زائل ہوگئی۔ اب ضرورت تھی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا علاج کروایا جائے۔ چنانچہ، ہم نے مشہور طبیب سلیمان کو بلایا۔ طبیب نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو جب بھی افاقہ ہوتا یہی کہتے : ” سوائے چند کے اکثر کے منہ قبلہ سے پھر ے ہوئے تھے۔ ” طبیب نے آپ کا علاج شروع کیا: اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! آپ کو شفاء مل گئی۔ صحتیابی کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہم سے پوچھا:” میرا علاج کرنے پر طبیب کو کیا دو گے ؟” ہم نے کہا: ”حضور! وہ طبیب آپ کے علاج پر کچھ بھی اُجرت نہیں چاہتا۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ! تم میرے علاج کے لئے شاہی طبیب لے کر آئے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اسے کچھ بھی نہ دوں۔” ہم نے کہا:” اگر دینا ہی چاہتے ہیں تو سونے کی ایک اشرفی دے دیں۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک تھیلی ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:” یہ اس طبیب کو دے دینا اور کہنا کہ اس وقت میرے پاس صرف اتناہی مال ہے یہ نہ سمجھنا کہ ہم مُرُوَّت میں بادشاہوں سے کم ہیں، اگر میرے پاس اس وقت مزید مال ہوتا تو تیری اجرت میں اضافہ کردیتا۔” جب ہم نے تھیلی کھول کر دیکھی تو اس میں پندرہ (15)اشرفیاں تھیں، ہم نے وہ رقم طبیب کو دے دی۔
راوی کہتے ہیں:”حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن اَسْبَاط علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق اپنے ہاتھوں سے کھجور کے پتوں کی ٹوکریاں بنا کر رزقِ حلال کمایا کرتے اور مرتے دم تک یہی کام کرتے رہے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)