جمعہ کا بیان
جمعہ فرضِ عین ہے ا سکی فرضیت ظہر سے زیادہ مؤکد ہے اس کا منکر کافر ہے۔ (درمختار وغیرہ) حدیث میں ہے :جس نے تین جمعے برابر چھوڑے اُس نے اسلام کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا وہ منافق ہے وہ اللّٰہ سے بے علاقہ ہے۔ (ابن خزیمہ وحبان و رزین وامام شافعی)
مسئلہ۱: جمعہ پڑھنے کے لیے چھ شرطیں ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی تو جمعہ ہوگا ہی نہیں ۔
شرائط جمعہ
{۱} مصر یافنائے مصر {۲} بادشاہ {۳} وقت ِظہر
{۴} خطبہ {۵} جماعت {۶} اِذنِ عام ( )
پہلی شرط: ِمصرو َفنائے مصر کا بیان
مصر سے وہ جگہ مرا دہے جس میں متعدد کوچے اور بازار ہوں اور وہ ضلع یا پرگنہ ( ) ہو کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ اپنے دَبدبہ وسطوت ( ) کے سبب مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے یعنی انصاف پر پوری قوت و قدرت ہو، اگرچہ ناانصافی کرتا اور بدلہ نہ لیتا ہو۔ فنائے مصر سے وہ جگہ مراد ہے جو مصر کے آس پاس مصر کی
مصلحتوں کے لیے ہو، جیسے قبرستان، گھڑ دوڑ کا میدان، فوج کے رہنے کی جگہ ، کچہری، اسٹیشن کہ یہ چیزیں شہر سے باہر ہوں تو فنائے مصر میں اِن کا شمار ہے اور وہاں جمعہ جائز ہے لہٰذا جمعہ یا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا اُن کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں ۔ (غنیہ وبہار شریعت وغیرہ)
مسئلہ۲: مصر کے لیے وہاں کا حاکم رہنا ضرور ہے اگر بطورِ دَورہ وہاں آگیا تو وہ جگہ مصر نہ ہوگی، نہ وہاں جمعہ قائم کیا جائے گا۔ (ردالمحتارو بہار شریعت)
مسئلہ۳: گاؤں کا رہنے والا شہر میں آیا اور جمعہ کے دن یہیں ر ہنے کا ارادہ ہے تو جمعہ فرض ہے۔
کیا شہر میں کئی جگہ جمعہ ہوسکتا ہے ؟
مسئلہ۴: شہر میں کئی جگہ جمعہ ہوسکتا ہے۔ چاہے شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور جمعہ دو مسجدوں میں ہو یا زیادہ میں ۔ (درمختار وغیرہ) مگر بلا ضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیا جائے کہ جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی ہے نیز دفع حر َج کے لیے تعدد جائز رکھا گیاہے تو خوامخواہ جماعت پر ا گندہ کرنا ( 1) اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنا نہ چاہیے۔
جمعہ کون قائم کرسکتا ہے؟
اور ایک بہت ضروری بات جس کی طرف لوگوں کو بالکل توجہ نہیں یہ ہے کہ جمعہ کو اَور
نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کرلیا اور جس نے چاہا پڑھادیا، یہ ناجائز ہے۔ اِس لیے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہ ِاسلام یا اِس کے نائب کا کام ہے اور جہاں سلطنت اسلامی نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا عالم، فقیہ، سنی، صحیح العقیدہ ہو۔ وہ اَحکامِ شرعیہ جاری کرنے میں سلطانِ اسلام کے قائم مقام ہے۔ لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے بغیر اُس کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اور اگر یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں لیکن عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطورِ خود کسی کو امام نہیں بناسکتے، نہ یہ ہوسکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کرلیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں ۔ (بہار شریعت)
دوسری شرط: بادشاہ کا بیان
بادشاہ اِس سے مراد سلطانِ اسلام یا اُس کا نائب ہے جس کو سلطان نے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ سلطان عادل ہو یا ظالم جمعہ قائم کرسکتا ہے۔ یوہیں اگرزبردستی بادشاہ بن بیٹھا یعنی شرعاً اس کو حق امامت نہ ہو۔ مثلاً قریشی نہ ہو یا اور کوئی شرط نہ ہو تویہ بھی جمعہ قائم کرسکتا ہے۔ (درمختاروردالمحتار وغیرہ)
تیسری شرط: وقت کا بیان
جمعہ کا وقت، وقت ِظہر ہے یعنی جو وقت ظہر کاہے، اُس وقت کے اندر جمعہ ہونا چاہیے تو اگر جمعہ کی نماز میں ، اگرچہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا تو جمعہ باطل ہوگیا، ظہر کی قضا پڑھیں ۔ (عامہ کتب)
چوتھی شرط: خطبہ کابیان
جمعہ کے خطبہ میں شرط یہ ہے کہ وقت میں ہو اور نماز سے پہلے ہو اور ایسی جماعت کے سامنے ہو جو جمعہ کے لیے ضروری ہے یعنی کم سے کم خطیب کے سوا تین مرد ہوں اور اتنی آواز سے ہو کہ پاس والے سن سکیں اگر کوئی اَمر مانع نہ ہوتو اگر زَوال سے پہلے خطبہ پڑھ لیا یا نماز کے بعد پڑھا یا تنہا پڑھا یا عورتوں اور بچوں کے سامنے پڑھا تو ان سب صورتوں میں جمعہ نہ ہوا۔
مسئلہ۵: خطبہ اور نماز میں اگر زیادہ فاصلہ ہوجائے تو وہ خطبہ کافی نہیں ۔ (درمختار و بہار شریعت)
خطبہ کس کو کہتے ہیں ؟
مسئلہ۶: خطبہ ذکر الٰہی کا نام ہے لہٰذا اگر صرف ایک بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یا سُبْحٰنَ اللّٰہ یا لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہا تو فرض ادا ہوگیا لیکن خطبہ کو اتنا مختصر کرنا مکروہ ہے۔ (درمختار وغیرہ)
مسئلہ۷: سنّت یہ ہے کہ دو خطبے پڑھے جائیں اور بڑے بڑے نہ ہوں ۔ اگر دونوں مل کر طِوالِ مفصَّل سے بڑھ جائیں تو مکروہ ہے خصوصاً جاڑے میں ۔ (غنیۃ ودرمختار و بہار)
خطبہ میں کیا چیزیں سنت ہیں ؟
مسئلہ۸: خطبہ میں یہ چیزیں سنت ہیں : خطیب کا پاک ہونا، کھڑا ہونا، خطبہ سے پہلے خطیب کا بیٹھنا، خطیب کا منبر پر ہونا اور سامعین کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پیٹھ کیے رہنا،
حاضرین کا امام کی طرف متوجہ رہنا، خطبہ سے پہلے اَعُوْذُ بِاللّٰہ آہستہ پڑھنا، اتنی بلند آواز سے خطبہ پڑھنا کہ لوگ سنیں ، اَلْحَمْد سے شروع کرنا، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی ثناء کرنا، اللّٰہتعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی رسالت کی شہادت دینا، حضور پر دُرود بھیجنا ،کم سے کم ایک آیت کی تلاوت کرنا، پہلے خطبہ میں وعظ و نصیحت کا ہونا، دوسرے میں حمد و ثناء و شہادت و دُرود کا اِعادہ کرنا اور دوسرے مسلمانوں کے لیے دعا کرنا، دونوں خطبے ہلکے ہونا، دونوں خطبوں کے درمیان بقدر تین آیت پڑھنے کے بیٹھنا، مستحب یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں آواز بہ نسبت پہلے کے پست ہواور خلفائے راشدین و عمین مکر مین حضرت حمزہ و عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا ذکر ہو۔ بہتر یہ ہے کہ دوسرا خطبہ اِس سے شروع کریں ۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَامُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہٗ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ وَنَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَنَشْھَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ ( 1)
مرد اگر امام کے سامنے ہو تو امام کی طرف منہ کرے اور داہنے بائیں ہو تو اما م کی طرف مڑ جائے اور امام سے قریب ہونا افضل ہے مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے لیے
لوگوں کی گردنیں پھلانگے البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جاسکتا ہے اور اگر خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا تو مسجد کے کنارے ہی بیٹھ جائے، خطبہ سننے کی حالت میں دوزانو بیٹھے جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں ۔
(عالمگیری، درمختار، غنیۃ وبہار وغیرہ)
مسئلہ۹: بادشاہ ِاسلام کی ایسی تعریف جو اس میں نہ ہو حرام ہے مثلاً مَالِکُ رِقَابِ الْاُمَم ( 1) کہ یہ محض جھوٹ اور حرام ہے۔ (درمختار)
مسئلہ۱۰: خطبہ میں آیت نہ پڑھنا یا دونوں خطبوں کے درمیان جلسہ نہ کرنا یا خطبہ پڑھنے میں بات کرنا مکروہ ہے البتہ اگر خطیب نے نیک بات کا حکم دیا یا بُری بات سے منع کیا تو اس میں حر َج نہیں ۔ (عالمگیری و بہار)
مسئلہ۱۱: عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ دوسری زبان خطبہ میں ملانا خلافِ سنت متوارَثہ ہے۔ یوہیں خطبہ میں اَشعا ر پڑھنا بھی نہ چاہیے اگرچہ عربی زبان ہی کے ہوں ہاں دو ایک شعر پند و نصائح ( 2) کے اگر کبھی پڑھ لے تو حر َج نہیں ۔ (بہارِ شریعت)
پانچویں شرط: جماعت
یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مرد ہونے چاہئیں ورنہ جمعہ نہ ہوگا۔ (ہدایہ، شرح وقایہ ، عالمگیری ، قاضی خان)
مسئلہ۱۲: اگر تین غلام یا مسافر یا بیمار یا گونگے یا اَن پڑھ مقتدی ہوں تو جمعہ ہوجائے گا اور
اگر صرف عورتیں یا بچے ہوں تو نہیں ۔ (عالمگیری، ردالمحتار)
چھٹی شرط: اذنِ عام
اس کا یہ مطلب ہے کہ مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے تاکہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے کسی کی روک ٹوک نہ ہو، اگر جامع مسجد میں جب لوگ جمع ہوگئے دروازہ بند کرکے جمعہ پڑھا جمعہ نہ ہوا۔ (عالمگیری)
مسئلہ۱۳: عورتوں کو اگر مسجد جامع سے روکا جائے تو اِذنِ عام کے خلاف نہ ہوگا کہ اُن کے آنے میں خوف ِفتنہ ہے۔ (ردالمحتار)
________________________________
1 – حمد ہے اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کے لیے، ہم اُس کی حمد کرتے ہیں اور اس سے مدد طلب کرتے ہیں اور مغفرت چاہتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر توکل کرتے ہیں اور اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کی پناہ مانگتے ہیں اپنے نفسوں کی برائی سے اور اپنے اعمال کی بدی سے جس کو اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) ہدایت کرے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو گمراہ کرے اُسے ہدایت کرنے والا کوئی نہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے سردار اور ہمارے مددگار محمد اس کے خاص بندے اور رسول ہیں۔