جسے اللہ رکّھے اُسے کون چکّھے

حکایت نمبر445: جسے اللہ رکّھے اُسے کون چکّھے

حضرت سیِّدُنامَعْدِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کا بیان ہے:ابوبُغَیْل نامی ایک شخص نے اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا: ”ایک مرتبہ طاعون کے مرض نے لاشوں کے انبار لگادیئے ،ہم مختلف قبیلوں میں جاکر مُردوں کو دفن کرتے۔ جب پور ے پورے گاؤں ہلاک ہونے لگے اور لاشوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو ہم انہیں دفنانے سے عاجز آگئے۔چنانچہ، اب ہم جس گھر میں داخل ہوتے اور دیکھتے کہ اس کے رہائشی فوت ہوگئے ہیں اور ان کی لاشیں گھر کے اندر ہی ہیں تو تمام لاشیں ایک کمرے میں جمع کرکے دروازہ اورکھڑکیاں وغیرہ بند کردیتے۔ اسی طرح گھرگھر جاکر ہم لاشیں جمع کرتے رہے پھرایک گھر میں گئے تودیکھاکہ گھرمیں موجود سب لوگ مر چکے ہیں ،ان میں کوئی ایک بھی زندہ نہ تھا۔ ہم نے گھر کے تمام دروازے بند کئے اور واپس آگئے۔
جب طاعون کا مرض چلا گیا تو ہم نے بندگھروں کو کھولنا شروع کیا، پھر ہم ایک گھرمیں گئے جس کے تمام رہائشی مرچکے تھے اور ہم نے اس کے دروازے اچھی طرح بند کئے تھے۔جب دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ صحن میں ایک تر وتازہ، فربہ
اور صاف ستھرابچہ موجود تھا۔ایسالگتا تھا جیسے ماں کی گود سے ابھی ابھی لیا گیا ہو۔ہم بڑی حیرانگی کے عالم میں قدرت خداوندی عَزَّوَجَلَّ کا نظارہ کررہےتھے اور متعجب تھے کہ یہ بچہ کہاں سے آیا اور اب تک بغیر خوراک کے کیسے زندہ ہے؟ ہم حیرت کی وادیوں میں گم تھے کہ اچانک ایک مادہ درندہ دیوار کے ٹوٹے ہوئے حصے سے اندر داخل ہوا اور بچے کے قریب آکر بیٹھ گیا،بچہ محبت سے اس کی طرف لپکا اور اس مادہ کا دودھ پینے لگا۔ خالقِ کائنات ورزّاقِ مخلوقات جَلَّ جَلَالُہٗ کی اس شانِ رزاقی کو دیکھ کرہم بہت حیران ہوئے کہ وہ جس طرح چاہتا ہے اپنے بندوں کو رزق کے اسباب مہیا کرتاہے ۔ اس نے ایک بچے کی خوراک کاانتظام کس طرح کیا۔ طاعون کی بیماری سے اس گھر کے تمام افراد عورتیں اور مرد موت کے گھاٹ اتر چکے تھے، انہیں افراد میں ایک حاملہ عورت بھی تھی جس کا انتقال ہوگیا پھر اس بچے کی ولادت ہوئی اور اس کے رزق کا انتظام ایک درندے کے ذریعے کیا گیا۔ حضرتِ سیِّدُنا مَعْدِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کہتے ہیں: ” اس بچے نے خوب پرورش پائی اورجو ان ہو گیا او ر میں نے وہ دن بھی دیکھا کہ وہ بصرہ کی مسجد میں اپنی داڑھی کو اپنے ہاتھوں سے سنواررہا تھا ۔خالق کائنات جلَّ مَجْدُہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر جس طرح چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔”

Exit mobile version