حکایت نمبر458 جنَّتی حوراور مَدَنی نوجوان
حضرتِ سیِّدُنااِدرِیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ” ہمارا لشکر دشمنانِ اسلام کی سرکوبی کے لئے ”روم ”کی جانب رواں دواں تھا۔ راستے میں مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاسے ایک نوجوان آیا اورمجاہدین میں شامل ہوگیا ۔ دشمن کے علاقے میں پہنچ کر ہم نے ایک شہر کا محاصر ہ کرلیا۔ ہم تین مجاہد ایک ساتھ تھے، ایک میں اور دوسرا ”زِیاد” نامی مدنی نوجوان تھا اور تیسرادوست بھی مدینۂ منورہ شریف کا رہنے والا تھا۔ ایک دن ہم پہرا دے رہے تھے کہ صبح کے وقت ہم میں سے ایک شخص کھانا لینے چلاگیا۔ اب میں اور زیاد نامی مدنی نوجوان ایک ساتھ تھے اتنے میں منجنیق سے پتھر پھینکا گیا جو زیاد کے قریب آ گرا ،پتھر کا ایک ٹکڑا زیاد کے گھٹنے پر لگا۔ جس سے اتنی شدید چوٹ لگی کہ وہ فوراً بے ہوش گیا۔ہم کافی دیر اس کے قریب کھڑے رہے لیکن اس نے حرکت نہ کی پھر بے ہوشی کی حالت میں یکایک اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، وہ اتنا ہنساکہ داڑھیں ظاہر ہونے لگیں ،پھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے دوبارہ ہنسا۔ اس کے بعد رونے لگا پھر خاموش ہوگیا۔کچھ دیر بعد اسے ہوش آیا تو اُٹھ بیٹھا اور کہنے لگا: ”یہ مجھے کیا ہوا ؟ میں کہاں ہوں ؟” ہم نے کہا:” کیا تجھے یاد نہیں کہ منجنیق کا ایک پتھر تجھے لگا تھا۔” اس نے کہا:”کیوں نہیں! مجھے یاد ہے۔” ہم نے کہا:” اس کے بعد تجھ پر بے ہوشی طاری ہوگئی اور ہم نے بے ہوشی کے عالَم میں تجھے اس اس طرح دیکھا ہے۔ ہمیں بتاؤ! آخر معاملہ کیا ہے ؟” مدنی نوجوان نے کہا:” ہاں! میں تمہیں ساری بات بتاتا ہوں، سنو!جب راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں مجھے پتھر لگا اور میں بے ہوش ہوگیا تو میں نے دیکھا کہ مجھے ایک ایسے وسیع وعالیشان کمرے میں لے جایاگیا جو زَبر جَد اور یاقوت سے بنا ہوا تھا ۔پھر ایک ایسے بستر پر لے جایا گیا جس میں ہیرے جواہرات سے مزین بہترین چادریں بچھی ہوئی تھیں ۔وہاں عمدہ قسم کے قیمتی تکیے رکھے ہوئے تھے ۔ابھی میں اس بستر پر بیٹھا ہی تھا کہ میں نے زیورات کی جھنکار (یعنی آواز) سنی، مڑ کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ایک انتہائی حسین وجمیل لڑکی بہترین لباس میں ملبوس اور عمدہ زیورات سے مزین میرے سامنے موجود تھی، میں نہیں جانتا کہ وہ زیادہ خوبصورت تھی یااس کے لباس وزیورات۔ وہ میرے سامنے آکر بیٹھی، ” خوش آمدید” کہااور بڑے پیار بھرے انداز میں میری جانب دیکھتے ہوئے یوں گویا ہوئی: ”اے میری راحت وسکون! اے میرے سرتاج! مرحبا! میں تمہاری دُنیوی بیوی کی طرح نہیں ہوں، پھر اس نے میرے بیوی کا اس انداز میں ذکر کیا کہ میں ہنسنے لگا۔ پھر وہ میری دائیں طرف میرے پہلومیں آکر بیٹھ گئی۔” میں نے پوچھا: ” تُو کون ہے؟” کہا :” میں تیری جنتی بیویوں میں ایک ناز والی بیوی ہوں۔”
میں نے اس کی طرف اپناہاتھ بڑھانا چاہا توبولی:” کچھ دیر رُک جاؤ! اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آج ظہر کی نماز کے وقت تم ہمارے پا س آجاؤ گے۔” اس کی یہ بات سن کرمیں رونے لگا، ابھی میں روہی رہا تھا کہ اپنی بائیں جانب زیورات کی جھنکار سنی، مڑ
کر دیکھا تو اسی کی طرح ایک اور خوبصورت دوشیزہ موجود تھی۔ اس نے بھی و ہی کہا جو پہلی نے کہا تھا۔ جب میں نے ہاتھ بڑھانا چاہا تو بولی: ”تھوڑی دیر رُک جاؤ! اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ظہر کے وقت تم ہمارے پاس پہنچ جاؤ گے۔” میں پھر رونے لگا۔ بس اس کے بعد مجھے ہوش آگیا اور اب میں تمہارے سامنے موجود ہوں۔ ہم اس کی بات سن کر بہت حیران ہوئے اور وقت کا انتظارکرنے لگے جیسے ہی ظہر کا وقت ہوا اور مؤذن نے اذان کہی، وہ مدنی نوجوان زمین پر لیٹا اور اس کی روح عالَمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)