جنازہ کے احکام و مسائل
(۱)’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَۃِ فَإِنْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُونَہَاإِلَیْہِ وَإِنْ تَکُ سِوَی ذَلِکَ فَشَرٌّ تَضَعُونَہُ عَنْ رِقَابِکُمْ‘‘(1)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ جنازہ کے لے جانے میں جلدی کرو اس لیے کہ اگر وہ نیک آدمی کا جنازہ ہے تواسے خیرکی(منزل)کی طرف جلد پہنچانا چاہیے
اور اگر بد کار کا جنازہ ہے تو بُرے کو اپنی گردنوں سے جلد اُتار دینا چاہیے ۔ (بخاری، مسلم)
(۲)’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَۃَ مُسْلِمٍ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا وَکَانَ مَعَہُ حَتَّی یُصَلّی عَلَیْہَا وَیَفْرُغَ مِنْ دَفْنِہَا فَإِنَّہ یَرْجِعُ مِنْ الْأَجْرِ بِقِیرَاطَیْنِ کُلّ قِیرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ وَمَنْ صَلَّی عَلَیْہَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ فَإِنَّہُ یَرْجِعُ بِقِیرَاطٍ‘‘.(2)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص ایمان کا تقاضا سمجھ کر اور حصولِ ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ ساتھ چلے یہاں تک کہ اس کی نماز پڑھے اور اس کے دفن سے فارغ ہو تو وہ دو قیراط ثواب لے کر واپس لوٹتا ہے ۔ جس میں سے ہرقیراط اُحد (پہاڑ) کے برابر ہے اور جو شخص صرف جنازہ کی نماز پڑھ کر واپس آجائے اور دفن میں شریک نہ ہو تو وہ ایک قیراط کا ثواب لے کر واپس ہوتا ہے ۔ (بخاری، مسلم)
(۳)’’عَنْ أَنَسٍ قَالَ مَرُّوا بِجَنَازَۃٍ فَأَثْنَوْا عَلَیْہَا خَیْرًا فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَی فَأَثْنَوْا عَلَیْہَا
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ چند صحابہ کرام ایک جنازہ کے قریب سے گزرے تو خیر کے ساتھ اس کا ذکر کیا اس پر حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے
شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ عُمَرُ مَا وَجَبَتْ فَقَالَ ہَذَا أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ خَیْرًا فَوَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ وَہَذَا أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَہُ النَّارُ أَنْتُمْ شُہَدَائُ اللَّہِ فِی الْأَرْضِ‘‘۔ (1)
ارشاد فرمایا کہ واجب ہوگئی پھر لوگوں کا دوسرے جنازہ پر گزر ہوا تو برائی کے ساتھ اس کا ذکر کیا اس پر حضور نے ارشاد فرمایا واجب ہوگئی۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ( یارسول اللہ) کیا چیز واجب ہوگئی ، فرمایا جس میت کا تم لوگوں نے بھلائی کے ساتھ ذکر کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم لوگوں نے برائی کی اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی تم لوگ زمین پر خدائے تعالیٰ کے گواہ ہو۔ (بخاری، مسلم)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث شریف کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’ مراد ثنائے اہلِ خیر وصلاح وصدق وتقوی بے مدخلیت غرض نفسانی ست کہ آن علامت بودن مردست از اہل جنت والا اگر بعضے از فساقِ وفجار بغرضے از اغراض یکے از اہل فسق بستایند یا یکے صالحے رانکوہش کنند قطع بداں نتواں کرد۔ (2)
یعنی اہلِ خیر و صلاح اور صدق وتقویٰ والوں کی ایسی تعریف مراد ہے جس میں نفسانی غرض شامل نہ ہو اس لیے کہ ایسی ہی تعریف آدمی کے جنتی ہونے کی نشانی ہے ورنہ اگر بعض فاسق وفاجر کسی غرض سے کسی فاسق کی تعریف کریں یا کسی نیک صالح آدمی کی برائی کریں تو اس کی وجہ سے ( جنتی یا جہنمی ہونے کا) یقین نہیں کرسکتے ۔ (اشعۃ اللمعات، جلد اول، ص۶۸۲)
(۴)’’عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ‘‘۔ (3)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ مُردوں کو گالی نہ دو۔ (بخاری)
(۵)’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اذْکُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ
حضرتِ ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اپنے مُردوں کی نیکیوں کا چرچا
وَکُفُّوا عَنْ مَسَاوِیہِمْ‘‘۔ (1)
کرو اور ان کی برائیوں سے چشم پوشی کرو۔ (ابوداود، ترمذی)
حضرت عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث شریف کے تحت فرماتے ہیں کہ:
ایں مخصوص ست بمسلماناں وصالحان وآنکہ آشکارا فسق نکنند وظلم نہ کنند۔ (2) (اشعۃ اللمعات جلد، اول)
یعنی یہ حکم ان نیک مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے جو علانیہ فسق و ظلم نہیں کر تے ہیں۔
(۶)’’ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ إِنَّ جَنَازَۃً مَرَّتْ بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ فَقَامَ الْحَسَنُ وَلَمْ یَقُمْ اِبْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ الْحَسَنُ أَلَیْسَ قَدْ قَامَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِجَنَازَۃِ یَہُودِیٍّ قَالَ نَعَمْ ثُمَّ جَلَسَ‘‘۔ (3)
حضرت محمد بن سیرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک جنازہ حضرت امام حسن بن علی و ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے قریب سے گزرا تو حضرت امام حسن کھڑے ہو گئے اور حضرت ابن عباس نہیں کھڑے ہوئے ۔ حضرت امام حسن نے حضرت ابن عباس سے فرمایا کیا حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام ایک یہودی کاجنازہ دیکھ کر کھڑے نہیں ہوئے تھے ؟ حضرت ابن عباس نے کہا ہاں لیکن پھر اس کے بعد بیٹھے رہتے تھے ( اور کھڑے نہ ہوتے تھے )۔ (نسائی)
اشعۃ اللمعات ترجمۂ مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت ہے کہ:
’’ پس حکم سابق منسوخ شد وایں نسخ درجنازہ یہود باشد یا مطلق واللہ اعلم وظاہر ثانی ست‘‘۔ (4)
یعنی تو پہلا حکم منسوخ ہوگیا اور یہ منسوخ ہونا صرف یہودی جنازہ کے بارے میں ہے یا ہر ایک کے لیے ، خدائے تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ سب کے لیے ہے ۔
فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۱۵۲ میں ہے :
’’ لَا یَقُومُ لِلْجَنَازَۃِ إلَّا أَنْ یُـرِیـدَ أَنْ یَشْہَدَہَا‘‘۔ (1)
یعنی جنازہ کے لیے نہ کھڑا ہو لیکن اس میں شرکت کا ارادہ ہو تو کھڑا ہوسکتا ہے ۔
اور طحطاوی ص:۳۶۷میں ہے :
’’ فَھُوَمَکْرُوْہٌ کَمَا فِی القُھُستَانِی‘‘(2)
یعنی جنازہ دیکھ کر کھڑا ہونا مکروہ ہے جیسا کہ قہستانی میںہے ۔
٭…٭…٭…٭