حکایت نمبر 361: جب بلا یاآقاصلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے خودہی انتظام ہوگئے
حضرتِ سیِّدُناقاسم بن محمد علیہ رحمۃ اللہ الصمد فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا سُفْیَان ثَوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا: ” آؤ!ابوہَمَّام نامی شخص کے پاس چلیں جو حضرتِ سیِّدُناعمر بن عبدالعزیزعلیہ رحمۃ اللہ القدیر کے متعلق ایک واقعہ بیان کرتا ہے۔” ہم دونوں اس کے پاس پہنچے تو میں نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیزعلیہ رحمۃ اللہ القدیر کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے کہا: ”مجھے فلاں پرہیز گارشخص کہ جس کی سچائی لوگوں میں مشہور ہے، نے کچھ اس طرح بتایا: ”میں مسلسل تین سال سے حج کی دعا کر رہا تھا لیکن میری یہ حسرت دل ہی میں رہی۔”
؎ کر رہے ہیں جانے والے، حج کی اب تَیَّاریاں
نہ جاؤں میں کہیں، کردو کرم پھر یا نبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم!
مجھ پہ کیا گزرے گی آقا! اس برس گر رہ گیا
میرا حال دل تو ہے، سب تم پہ ظاہر یا نبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم!
چوتھے سال حج کا موسِم قریب تھا۔ میرے دل میں زیارتِ حرمینِ شریفین کی خواہش مچل رہی تھی ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہوا میری دعا کی قبولیت کچھ اس انداز میں ہوئی کہ ایک رات جب میں سویا تو میری دل کی آنکھیں کھل گئیں، سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جا گ اٹھی، مجھے رحمتِ عالم ، نورِ مجسّم ، رسولِ محتشم،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت نصیب ہوئی ۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” تم اس سال حج کے لئے چلے جانا۔ ”
میری آنکھ کھُلی تو دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔ بارگاہِ نبوت سے حج کی اجازت مل چکی تھی۔ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی میٹھی میٹھی آواز اب تک کا نوں میں رَس گھول رہی تھی، میں بہت شاداں وفرحاں تھا ۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ میرے پاس زادِ راہ تو ہے نہیں، میں تو بالکل بے سرو سامان ہوں ۔ بس اس خیال کے آتے ہی میں غمگین ہوگیا ۔ دوسری رات پھر خواب میں حضور نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا دیدار ہوا لیکن میں اپنی بے سرو سامانی کا ذکر نہ کر سکا۔ اسی طرح تیسری رات
بھی بارگاہِ نبوت سے حکم ہوا کہ ” تم اس سال حج کو چلے جانا ۔”میں نے سوچا اگر دوبارہ خواب میں میرے آقا ومولیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لائے تو میں اپنی بے سر و سامانی کے متعلق عرض کروں گا ۔بقولِ شاعر:
؎ پاس مال وزَر نہیں، اُڑنے کو بھی پَر نہیں
کر دو کوئی انتظام، تم پر کروڑوں سلام
چوتھی رات پھر مدینے کے تا جْوَر ،سلطانِ بحر وبر، محبوبِ ربِّ اکبر عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میرے گھر میں جلوہ گَری فرمائی، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مجھ سے یہی ارشاد فرمارہے تھے: ” تم اس سال حج کو چلے جانا۔”میں نے دست بستہ عرض کی: ” میر ے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم !میرے پاس تو زادِ راہ بھی نہیں۔” ارشاد فرمایا :” کیوں نہیں! تم اپنے مکان کی فلاں جگہ کھودو وہاں تمہارے دادا کی زِرہ موجود ہوگی ۔” اتنا فرماکرنور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لے گئے ۔ صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت خوش تھا ۔ نمازِ فجر ادا کرنے کے بعدآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بتائی ہوئی جگہ کھودی تو وہاں واقعی ایک قیمتی زِرہ موجود تھی۔ وہ ایسی نئی تھی گویا اسے کسی نے استعمال ہی نہ کیا ہو۔ میں نے اسے چا ر ہزار دینار میں بیچا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی نظرِ عنایت سے اسبابِ حج کا خود ہی انتظام ہوگیا: ؎جب بلایا آقا انے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود ہی انتظام ہوگئے
میں زادِراہ خرید کر حجاج کے قافلے میں شامل ہو گیا۔ اب ہمارا قافلہ سوئے حرم رواں دواں تھا ۔ حرم شریف پہنچ کر مناسکِ حج ادا کئے۔ اب واپسی کا ارادہ تھا میں وہاں کے مناظرپر الوداعی نظر ڈال رہا تھا۔ جدائی کا وقت قریب آتا جارہا تھا ۔ میں نوافل ادا کرنے ”اَبْطَحْ” کی جانب گیا ۔ وہاں کچھ دیر آرام کے لئے بیٹھاتو اونگھ آگئی ،سر کی آنکھیں بند ہورہی تھیں اور دل کی آنکھیں کھل رہی تھیں۔ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنا نورانی چہرہ چمکاتے مسکراتے ہوئے تشریف لائے اور ارشاد فرمایا : ” اے خوش بخت ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیری سعی کو قبول فرمالیا ہے ۔ تو عمر بن عبد العزیز کے پاس جا اور اسے کہنا: ”ہمارے ہاں تمہارے تین نام ہیں:عمر بن عبد العزیز ، امیر المؤمنین ، اَبُو الیَتَامٰی(یعنی یتیموں کا والی)، اے عمر بن عبد العزیز! قوم کے سرداروں اور ٹیکس وصول کرنے والوں پر اپنا ہاتھ سخت رکھنا۔ ” اتنا فرما کر سیِّدُالْمُبَلِّغِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم واپس تشریف لے گئے ۔ میں بیدار ہواا ور اپنے رفقاء کے پاس پہنچ کر کہا: ” جاؤ! اللہ تبارک وتعالیٰ کی برکت کے ساتھ اپنے و طن لوٹ جاؤ! میں کسی وجہ سے تمہارے ساتھ نہیں جاسکتا ۔ ”
پھرمیں”شام ”جانے والے قافلے میں شامل ہو گیا۔ دمشق پہنچ کر امیر المؤمنین کا گھر معلوم کیا اور زوال سے کچھ دیر قبل وہاں پہنچ گیا۔باہری دروازے کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے کہا : ” امیرالمؤ منین سے میرے لئے حاضر ی کی اجازت طلب کرو ۔”وہ بولا:” امیر المؤمنین کے پاس جانے سے تمہیں کوئی نہیں روکے گا، لیکن ابھی وہ لوگوں کے مسائل حل فر ما
رہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ تم کچھ دیر انتظار کرلوجیسے ہی وہ فارغ ہوں گے میں تمہیں بتا دوں گا اور اگر ابھی حاضر ہونا چا ہو تو تمہاری مرضی۔” میں انتظار کرنے لگا ،کچھ دیر بعد بتایا گیا: ”امیر المؤمنین لوگو ں کے مسائل سے فارغ ہوچکے ہیں۔” چنانچہ، میں نے حاضرِ خدمت ہو کر سلام پیش کیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:” تم کون ہو ؟” میں نے عرض کی:” میں رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا قاصد ہوں اور آپ کی طرف پیغام لے کر آیا ہوں ۔” یہ سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میری طرف دیکھا اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پانی پی رہے تھے۔ فوراً پیالہ ایک طرف رکھا ، مجھے سلامتی کی دعا دی پھر اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا:” تم کہاں سے آئے ہو ؟ ”میں نے کہا :” بصرہ کا رہنے والا ہوں ۔” پوچھا:” کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو ۔”میں نے کہا: ” فلاں قبیلے سے۔” فرمایا:” وہاں اس سال گندم کیسی ہوئی ہے ؟ تمہارے جَوْ کی فصلیں کیسی ہوئی ہیں ؟وہاں کے انگور کیسے ہیں ؟ وہا ں کی کھجوریں کیسی ہیں ؟ گھی کیسا ہے؟ وہاں کے ہتھیار اور بیج کی کیا حالت ہے ؟ ”الغرض! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خرید وفروخت سے متعلقہ تمام چیزوں کے بارے میں سوال کیا۔ جب ان تمام چیزوں کے متعلق پوچھ چکے تو پہلی بات کی طرف آئے اور کہا: ”تیرا بھلا ہو تُو تو بہت عظیم معاملہ لے کر آیا ہے۔” میں نے عرض کی:” حضور! مجھے خواب میں جو پیغام ملامیں وہی لے کر حاضر ہو ا ہوں۔”پھر میں نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت سے یہاں پہنچنے تک تمام واقعات آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کہہ سنائے ، مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے انہیں مجھ پر اعتماد ہوگیا ہے اور ان کے نزدیک میری تمام باتیں ثابت ہوچکی ہیں۔” فرمایا:” تم ہمارے پاس ٹھہرو، ہم تمہاری خیر خواہی کریں گے ۔” میں نے کہا :” حضور! میں پیغام لے کر حاضر ہوا تھا ، اب میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکا ہوں، مجھے اجازت عطا فرمائیے۔” آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ مجھے وہیں چھوڑ کر اندر تشریف لے گئے۔ واپسی پر چالیس دیناروں سے بھر ی ایک تھیلی میری طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا:” اس وقت میرے پاس ان دیناروں کے علاوہ کو ئی اور چیزنہیں تم بطورِ تحفہ یہ قبول کرلو ۔”
میں نے کہا :” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں کبھی بھی حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا پیغام پہنچا نے کے عوض کوئی چیز نہیں لوں گا ۔ بے حد اصرار کے باوجود میں نے ان دیناروں کو ہاتھ تک نہ لگا یا ۔ میں نے واپسی کی اجازت چاہی اورجب میں الوداع کہہ کراٹھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے سینے سے لگالیا اور دروازے تک چھوڑ نے آئے اور اَشک بار آنکھوں سے مجھے رخصت کیا۔میں اس ولئ کامل سے ملاقات کے بعد اپنے شہر کی جانب آرہا تھااور دل میں ان کی محبت وتعظیم مزید بڑھ گئی تھی۔ بصرہ پہنچنے کے کچھ ہی دن بعد مجھے یہ جان لیو ا خبر ملی: ”ولئ کامل، امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر ہزاروں آنکھوں کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیاسے پردہ فرما گئے اور دارِ عقبیٰ کی طرف روانہ ہو گئے۔” اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔آپ کی جدائی پرہر آنکھ اشک بار تھی اورہر زبان گویایوں کہہ رہی تھی:
؎ عرش پر دھومیں مچیں، وہ مومنِ صالح ملا فرش سے ماتم اٹھے، وہ طیب و طاہر گیا
پھر میں مجاہد ین کے ہمراہ جہاد کے لئے روم چلا گیا ۔ وہاں مجھے وہی شخص ملا جو حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر کے دروازے پر بیٹھا ہو اتھااورجس کے ذریعے میں نے اجازت طلب کی تھی۔ میں اسے پہچان نہ سکا لیکن اس نے مجھے پہچان لیا میرے قریب آکر سلام کیا اور کہا:” اے بندۂ خدا! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کا خواب سچا کردیا ہے ۔ امیر المؤمنین کے بیٹے عبد المَلِک بیمار ہوگئے تھے ۔ میں رات کے وقت ان کی خدمت پر مامور تھا ۔ جب میں ان کے پاس ہوتا تو امیر المؤمنین چلے جاتے اور نماز پڑھتے رہتے ۔ جب وہ اپنے بیٹے کے پاس آجاتے تو میں جاکر سوجاتا۔ میرے جاتے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دروازہ بند کر لیتے اور نماز میں مشغول ہوجاتے۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ایک رات میں نے اچانک امیر المؤمنین کے رونے کی آواز سنی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بڑے درد بھرے انداز میں بلند آواز سے رو رہے تھے ۔ میں گھبرا کر دروازے کی طرف لپکا دروازہ اندر سے بند تھا۔ میں نے کہا:” اے امیر المؤمنین! کیا عبدالمَلِک کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہے ؟” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسلسل روتے رہے اور میری بات کی طرف بالکل تو جہ نہ دی ۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو کچھ افاقہ ہوا تو دروازہ کھول کر فرمایا:” اے بندۂ خدا! جان لے! بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس بصری کا خواب سچا کر دکھا یا۔ابھی ابھی مجھے خواب میں حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت نصیب ہوئی ۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھ سے وہی ارشاد فرمایا جو اس بصری نے پیغام دیا تھا ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)