اسلام میں عورت کا مقام اورغیر مذاہب میں اس کی زبوں حالی
عورت خواہ ماں کے رُوپ میں ہو ،بیٹی ،بہن کے رُوپ میں غرض ہر صورت اِس کی عزت وتکریم ہم پر واجب ہے ۔ عورت جس کو اِسلام نے ایک خاص مقام ومرتبہ عطا کیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اِسلام سے قبل اِس کی کتنی عزت وقدرکی جاتی تھی۔دنیا کی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تویہ بات ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اکثر اقوام عورت کی عزت نہیں کرتی تھیں ۔ عورت کو محض لونڈیاں اورپائوں کی جوتی سمجھ کر اِس پر شب وروزظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔قبل اَز اِسلام چین ،روم یونان اورہندوستان تہذیب اورتمدن کے گہوارے تصور کئے جاتے تھے۔جہاں سے صحیح معنوں میں تہذیب وتمدن کی کرنیں پھوٹتی تھیں لیکن یہاں پر بھی عورت کوقطعًا اِحترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا ۔ یہاں بھی عورتوں سے وحشیانہ سلوک کیاجاتا تھا ۔اُس وقت کے ایک یونانی عالِم سقراط کا کہنا ہے کہ’’عورت سے زیادہ دنیا میں فتنہ اورفساد کی جڑ اورکوئی نہیں۔‘‘
اِسی طرح ایک انگریز مفکر کابیان ہے کہ: ’’عورتوں پر ظلم کااندازہ اِس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ یورپ کے مختلف اوقات میں تقریباً نَوّے لاکھ عورتوں کو زندہ جلا دیاگیا اور ہندوستان میں تو یہ رَسم کہیں کہیں پائی جاتی ہے ۔ان کے عقیدے اورمذہب کے مطابق عورت صرف ایک شادی کرسکتی ہے لہٰذا اگر اُس کا خاوند خواہ جوانی میں ہی فوت ہوجائے تواُس کا اِس دنیا میں اپنے خاوند کے بغیر جینے کاکوئی حق نہیں ہے۔لہٰذا اُسے بھی عین جوانی کے ہی عالم میں (اگر اُس کاخاوند فوت ہوگیا ہوتو) مرد کے ساتھ زندہ جلادیا جائے۔اگرچہ آج کل ایسا زیادہ تونہیں ہوتا ۔لیکن پھر بھی اُس پر دوسری شادی نہ کرنے کی پابندی ضرور کردی جاتی ہے ۔ یہ صورت حال ہندو دَھرم کی ہے۔‘‘