سوال: (۱) مسجد میں گھڑی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ زید اس کا رکھنا ناجائز سمجھتا ہے۔
(۲) نمازوں کے دوران میں اگر روشنی یکایک گل ہو جائےتو نماز کو جاری رکھنا کیسا ہے؟
(۳)نماز عشا کے بعد فجرتک سامان کی حفاظت کے لیے مسجد کوتالا لگانا جائز ہے یانہیں؟۔
(۴)مسجد میں بیٹھ کر دنیاوی باتیں کرنا جائز ہے یا نہیں؟
(۵)دو بے داڑھی اشخاص ایک مسجد میں امامت کرتے ہیں، ایک قانون قرات سے واقف ہے اوردوسرا ناواقف۔ان میں سے کس کو ترجیح دی جائے؟
(۶)اذان میں اشھدان محمدالرسول اللہ کے محمد ﷺکے دال اور رسول کے لام کو کیسا پڑھا جائے؟۔
جواب: (۱)
مسجد میں گھڑی رکھناجائز ہے تاکہ نمازوں اور افطار کا وقت معلوم ہوجائے۔ جماعت کے لیے لوگ وقت مقرر ہ پر حاضر ہوسکیں ۔حضور ﷺ کے زمانے میں مسجد کی چھت کھجور کی پتوں کی تھی یہاں تک کہ جب بارش آئی پانی اندگزرتا ہے اب زید کے نزدیک پختہ عمارت ناجائز ہے ۔ زید کو کہیں جھونپڑی میں بھیج دیں۔پختہ عمارتیں صحابہ و تابعین کے اتفاق سےبنائی گئ ۔مسجد کو منور کرنا زینت دینا وغیرہ بہت ہی بہتر ہے اس سے اسلام کی عظمت اور شان بڑھ جاتی ہے ۔جیسا کہ قرآن شریف کا موٹے موٹے حرفوں میں لکھنا اور سونے کے پانی سےزینت دینا بہت ہی بہتر ہے کیوں کہ اللہ کے کلام کی تعظیم ہے۔(یہ کتب فتاؤں میں موجود ہے)
(۲) بلاکراہت جائز ہے۔
(۳) جائز ہے۔
(۴) حدیث شریف میں آیا ہے کہ چالیس سال کی عبادت برباد ہوہوجاتی ہے اس سے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف باتیں کرنے کے لیے آتے ہیں نہ کہ عبادت کرنے کے لیے۔اسی لیے بہتر یہ ہے کہ جب کوئی مسجد کو نماز پڑھنے کے لیے آجائے تو مسجد میں داخل ہوتے ہی اعتکاف کی نیت کرے جب تک مسجد میں رہے اعتکاف کا ثواب پاتا رہے۔اگر کوئی مسجدمیں کوئی چیز کھائے یا دنیاوی باتیں کرنا سوناہرگزجائز نہیں۔
(۵) دونوں فاسق معلن ہیں ، اگر اس مقام پر سب کے سب فاسق ہیںتو ان فاسقوں میں سے اس کو امام بنائے جو علم رکھتا ہے۔باقی صالحین کو جو بے علم ہیں ان کی بھی نمازاس فاسق کے پیچھے جائز ہے۔ اگر جاننے والا صالح ہے تو اس کی نماز اس فاسق معلن کے پیچھے جائز نہیں مکروہ تحریمی ہے اگر پڑھ بھی لیا تو اس نماز کو دوبارہ پڑھ لینا واجب ہے۔
(۶) لفظ محمدﷺ کے دال کوزبراور رسول کے لام کو پیش سے پڑھیں۔