ایصال ثواب کا جواز

ایصال ثواب کا جواز

(۱)’’ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ قَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ فَأَیُّ الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ قَالَ الْمَائُ فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ ہَذِہِ لِأُمِّ سَعْدٍ رَوَاہُ أَبُوداؤد وَالنِّسَائی‘‘۔ (1) (مشکوۃ، ص۱۹۹)
حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور علیہ ا لصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ ام سعد یعنی میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے ان کے لیے کون سا صدقہ افضل ہے ۔ سرکار ِ اقدس نے
فرمایا پانی (بہترین صدقہ ہے تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشاد کے مطابق) حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کنواں کھدوایا ( اور اسے اپنی ماں کی طرف منسوب کرتے ہوئے ) کہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لیے ہے ۔ (یعنی اس کا ثواب ان کی روح کو ملے )۔ (ابوداود، نسائی)
(۲)’’ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ أُمِّیَ افْتُلِتَتْ نَفْسُہَا وَلَمْ تُوصِ وَأَظُنُّہَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ أَفَلَہَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْہَا قَالَ نَعَمْ‘‘۔ (2)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا سے روایت ہے کہ ایک شخص آئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور وہ کسی بات کی وصیت نہ کرسکی۔ میر ا گمان ہے کہ انتقال کے وقت اگر اسے کچھ کہنے سننے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ ضرور دیتی تو اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کی رُوح کو ثواب پہنچے گا ؟ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ہاں پہنچے گا۔ (مسلم ، جلد اول ، ص ۳۲۴)
علامہ نووی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث شریف کے تحت فرماتے ہیں کہ :
’’ فِی ھَذَا الْحَدِیْثِ أَنَّ الصَّدْقَۃَ عَنِ الْمَیِّتِ یعنی اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ اگر میت
تَنْفَعُ الْمَیِّتَ وَیَصِلُ ثَوَابُھَا وَھُوَ کَذَلِکَ بِإِجْمَاعِ الْعُلَمَاء‘‘۔ (1) (نووی شرح مسلم، جلد اول، ص۳۲۴)
کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو میت کو اس کا فائدہ و ثواب پہنچتا ہے ۔ اسی پر علماء کا اتفاق ہے ۔
( ان احادیث کریمہ سے مندرجہ ذیل باتیں واضح طور پرمعلوم ہوئیں۔ )
(۱)… میت کے ایصالِ ثواب کے لیے پانی بہترین صدقہ ہے کہ کنواں وغیرہ کھدوا کر اس کا ثواب میت کو بخش دیا جائے ۔
(۲)…میت کو کسی کارِ خیر کا ثواب بخشنا بہتر ہے ۔ تفسیر عزیزی پارہ عم ص: ۱۱۳ میں ہے : ’’مردہ در آن حالت مانند غریقی ست کہ انتظار فریاد رسی می برد وصدقات وادعیہ وفاتحہ دریں وقت بسیار بکارمی آید وازیں جاست کہ طوائف بنی آدم تایکسال وعلی الخصوص تایک چلّہ بعد موت دریں نوع امداد کوشش تمام می نمایند‘‘۔ (2)
(۳)…ثواب بخشنے کے الفاظ زبان سے ادا کرنا صحابی کی سنت ہے ۔
(۴)…کھانا یا شیرینی وغیرہ کو سامنے رکھ کر ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے اس لیے کہ حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اشارئہ قریب کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فرمایا’ ’ ھٰذِہ لِاُمِّ سَعْدٍ‘‘ یہ کنواں سعد کی ماں کے لیے ہے ۔ یعنی اے اللہ تعالیٰ اس کنو ئیں کے پانی کا ثواب میری ماں کو عطا فرما۔ اس سے معلوم ہوا کہ کنواں ان کے سامنے تھا۔
(۵)…غریب و مسکین کو کھانا وغیرہ دینے سے پہلے بھی ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے ۔ جیسا کہ صحابی رسول نے کیا کہ کنواں تیار ہونے کے ساتھ ہی انہوں نے ایصالِ ثواب کیا حالانکہ لوگوں کے پانی استعمال کرنے کے بعد ثواب ملے گا۔ اسی طرح اگرچہ غریب و مسکین کو کھانا دینے پر ثواب مرتب ہوگا۔ لیکن اس ثواب کو پہلے ہی سے بخش دینا بھی جائز ہے ۔
(۶)…کسی چیز پر میت کا نام آنے سے وہ چیز حرام نہ ہوگی مثلاً غوث پاک کا بکرا، اور غازی میاں کا مرغا وغیرہ اس لیے کہ ایک جلیل القدر صحابی نے اس کنوئیں کو اپنی مرحومہ ماں کے نام سے منسوب کیا تھا جو آج تک ’’بیرأُمّ سعد‘‘ ہی کے نام سے مشہور ہے ۔
٭…٭…٭…٭

Exit mobile version