انسانی بدن میں زبان کی اہمیت

انسانی بدن میں زبان کی اہمیت

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!

اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان اللہ عزوجل کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ۔ اس زبان کے ذریعے نیکیاں بھی کمائی جاسکتی ہیں اور یہی زبان ہمیں جہنم کی گہرائیوں میں بھی پہنچا سکتی ہے ۔ افسوس!فی زمانہ زبان کی حفاظت کا تصور تقریباً مفقود ہوچکا ہے ،ہمیں اس چیز کا احساس ہی نہیں ہے کہ گوشت کا یہ چھوٹا ساٹکڑا جو

دوہونٹوں اور دوجبڑوں کے پہرے میں ہے ،کس طرح ہمارے پورے وجود کو دنیوی واُخروی مصائب میں مبتلاء کروا سکتا ہے ۔ جیساکہ۔۔۔۔۔۔
(1) حضرتِ سیدنابلال بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلمکا فرمان ہے کہ”بندہ زبان سے بھلائی کاایک کلمہ نکالتاہے حالانکہ وہ اس کی قدروقیمت نہیں جانتاتو اس کے باعث اللہ عزوجل قیامت تک اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے ،اور بےشک ایک بندہ اپنی زبان سے ایک برا کلمہ نکالتا ہے اوروہ اس کی حقیقت نہیں جانتاتو اللہ عز وجل اس کی بناء پراس کے لئے قیامت تک کی اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے۔”

(ترمذی،کتاب الزھد،باب فی قلۃ الکلام،ج۴،ص۱۴۳)

(2) حضرتِسیدناابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم انے فرمایا: ”جب آدمی صبح کرتا ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں:” اے زبان ! تو ہمارے معاملے میں اللہ سے ڈر کیونکہ ہم تیرے ساتھ اورتابع ہیں اگر توسیدھی رہی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر ٹیٹرھی ہوئی توہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے ۔”

(ترمذی ، کتاب الزھد ، باب ماجاء فی حفظ اللسان ، رقم :۲۴۱۵، ج۴،ص ۱۸۳ )

(3) حضرتِسیدنا ابووائل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رحمتِ عالم ا نے ارشاد فرمایا: ”ابن آدم کی اکثر خطائیں اس کی زبان سے سرزد ہوتی ہیں ۔”

(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب ، رقم: ۳۳، ج۳، ص۳۴۲)

(4) منقول ہے کہ جب زبان جسم کے دیگر اعضاء سے پوچھتی ہے کہ : ”تمہارا کیا حال ہے؟”تو اعضاء جواب دیتے ہیں :”ہم خیریت سے ہیں اگر تُو ہمیں چھوڑے رکھے۔” (المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر ،ج۱، ص ۱۴۷)

(5) حضرتِ سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:”اللہ عز وجل کی قسم! زمین پر زبان سے زیادہ قیدی بنانے کے لائق کوئی شے نہیں ۔”

(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب ، رقم :۱۳، ج۳،ص۳۳۷)

(6) اکابرین فرماتے ہیں کہ ”زبان ایک درندے کی مانند ہے اگر تم اسے باندھ کر نہیں رکھو گے تو یہ تمہاری دشمن بن جائے گی اور تمہیں نقصان پہنچائے گی۔”

(المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر،ج۱ ، ص ۱۴۶)

پیارے اسلامی بھائیو!
نتائج سے بے پرواہ ہوکر بلا تکان بولتے چلے جانا آج ہماری عادت بن چکا ہے مگر یادرکھئے کہ ہماری زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ نوٹ کیا جارہا ہے ،جیسا کہ قرآن مجید فرقانِ حمید میں ہے :

مَا یَلْفِظُ مِنۡ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ ﴿۱۸﴾

ترجمۂ کنزالایمان : کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔”

(پ ۲۶،قۤ :۱۸ )

اور میدانِ محشر کے وحشت ناک ماحول میں ہمیں اس تحریر شدہ نامۂ اعمال کو پڑھ کر سنانا پڑے گا ، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :

وَ نُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا ﴿۱۳﴾اِقْرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا ﴿ؕ۱۴﴾

ترجمۂ کنزالایمان: اور اس کے لئے قیامت کے دن ایک نوشتہ(یعنی نامۂ اعمال) نکالیں گے جسے کھلا ہوا پائے گا ، فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ پڑھ آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے ۔”

(پ۱۵، بنی اسرائیل :۱۳،۱۴)

پیارے اسلامی بھائیو!ذراتصور تو کیجئے کہ میدانِ محشر کی خوفناک فضاء میں کہ جب پیاس کی شدت سے دم نکلا جارہا ہو، بھوک سے کمر ٹوٹ رہی ہو ،جہنم کی ہولناک سزاؤں کا سوچ کر کلیجہ منہ کو آرہا ہوپھر وہاں ہمارے متعلقین بھی موجود ہوں تو مُغَلَّظات وفضولیات سے بھر پور نامۂ اعمال کو پڑھناکتنا دُشوار کام ہے؟۔۔۔۔۔۔
لہذا!میدانِ محشر میں اس ممکنہ پریشانی سے بچنے کے لئے ہمیں اپنی زبان کی حفاظت سے ذرّہ برابر بھی غفلت نہیں کرنی چاہے ۔ہمارے اکابرین نے بھی ہمیں یہی تلقین فرمائی ہے ،چنانچہ
(۱) حضرتِ سیدناابوجحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کونسا ہے؟” صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی جواب نہیں دیا اورخاموش رہے ۔ پھر آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا:”زبان کی حفاظت۔ ”

(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب وغیرہ، رقم :۱۰، ج۳،ص۳۳۶)

(۲) حضرتِ سیدناابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :”یارسول اللہ ! سب سے افضل مسلمان کون ہے؟ ”فرمایا:” جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔” (بخاری، کتاب الایمان ، باب ای الاسلام افضل ، رقم ۱۱ ، ج۱ ، ص ۱۶)

(۳) حضرتِ سیدنا عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگا ہ میں عرض کی :” یارسول اللہ! سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ ” ارشادفرمایا:”والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک کرنا۔”میں نے عرض کی :”پھر کون سا ؟” فرمایا،” وقت پر نماز پڑھنا ۔”میں نے عرض کی:”پھر کون سا؟ ”فرمایا:” تمہاری زبان

سے مسلمانوں کا محفوظ رہنا۔” (طبرانی کبیر، مسند ابن مسعود، رقم ۹۸۰۲،ج۱۰ ، ص ۱۹)

(۴) حضرتِ سیدنا حا رث بن بشا م رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عر ض کیا:”یا رسول اللہ! مجھے کوئی عمل بتائیے جسے میں اپنے آپ پر لازم کرلوں۔” تو آپ صلي الله عليہ وسلم نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:” اس پر قابو پالو۔”

(طبرانی کبیر، مسند حا رث بن ہشام، رقم :۳۳۴۹ ، ج۳ ، ص ۲۶۰)

(۵) حضرتِ سیدنا سفیان بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکارِ دو عالم صلي الله عليہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی:” یارسول اللہ ! مجھے ایسا کام بتائیں جو میرے لئے ذریعۂ نجات بن جائے؟” آپ صلي الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کہو ،میر ارب اللہ ہے اورپھر اس پر استقامت اختیار کرو۔ ”میں نے عرض کی ،” آپ سب سے زیادہ مجھ پر کس چیز کا خوف کرتے ہیں ؟” آپ نے اپنی زبان اقدس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”اس کا۔”

(ترمذی ، کتاب الزھد ، رقم : ۲۴۱۸، ج۴،ص۱۸۴)

(۶) حضرتِ سیدنا عُقْبَہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کی : ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نجات کیا ہے ؟ ”ارشاد فرمایا:” اپنی زبان اپنے قابو میں رکھو اور اپنے گھر کو وسیع رکھو اور اپنے گناہ پر رولیا کرو ۔”

( ترمذی، کتاب الزھد ، باب حفظ اللسان ، رقم :۲۴۱۴ ،ج۴ ، ص ۱۸۲)

(۷) حضرتِ سیدنا ابن عمررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم انے ارشاد فرمایا: ”اللہ کے ذکر کے علاوہ کلام میں کثرت نہ کرو کیونکہ اللہ کے ذکر کے علاوہ کثرت سے کلام دل کو سخت کر دیتاہے اوراللہ سے سب سے زیادہ دورسخت دل والاہوتاہے۔ ”

(ترمذی ، کتاب الفتن ، رقم : ۲۴۱۹،ج۴،ص۱۸۴)

(۸) حضرتِ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رحمتِ عالم انے ارشاد فرمایا: ”جو اپنا غصہ پی لے گا اللہ عز وجل اس سے اپنا عذاب دور کریگا اور جو اپنی زبان کی حفاظت کریگا اللہ عز وجل اسکے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔ ”

(مجمع الزوائد کتاب الادب رقم ۱۲۹۸۳ ج۸ ص ۱۳۲)

(۹) حضرت سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہنے ارشاد فرمایا: ”کلام کرنا دوا کی مثل ہے ، اگر تم اس کا قلیل استعمال کرو گے تو یہ تمہیں فائدہ دے گا اور اگر اس کے استعمال میں زیادتی کرو گے تو تمہیں نقصان پہنچائے گا۔” (المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر،ج۱ ، ص ۱۴۷)

(۱۰) حضرت سیدناقس بن ساعدہ رضی اللہ تعالی عنہاور حضرت سیدنا اکثم بن صیفی رضی اللہ تعالی عنہ کی آپس میں ملاقات ہوئی تو ایک نے دوسرے سے پوچھا :”آپ کا کیا خیال ہے کہ کسی آدمی میں کتنے عیوب ہوسکتے ہیں ؟” دوسرے نے جواب دیا :”یہ عیوب توبے شمار ہیں لیکن ایک خوبی ایسی ہے کہ انسان اس کی بناء پر اپنے تمام عیوب کو چھپا سکتا ہے ۔” انہوں نے پوچھا :”وہ کونسی؟”جواب دیا :”زبان کی حفاظت کرنا۔”

(المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر ،ج۱، ص ۱۴۶)

(۱۱) حضرت سیدنا امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہنے اپنے رفیق حضرت ربیع رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ”اے ربیع!(کبھی) فضول کلام مت کرناکیونکہ جب تم بات کہہ چکو گے تو وہ تم پر حاکم بن بیٹھے گی اور تم اس کے غلام ہوجاؤگے ۔” (المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر،ج۱ ، ص ۱۴۶)

(۱۲) ایک حکیم کا قول ہے : ”جب تجھے اپنا بولنا عُجب میں مبتلاء کردے تو خاموش ہوجا، اور جب خاموشی باعث ِ عُجب بنے تو بولنا شروع کردے۔”

(المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر،ج۱ ، ص ۱۴۷)

(۱۳) حضرت سیدنا لقمان رضی اللہ تعالی عنہنے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی : ”اے بیٹے!جب لوگ اپنے حسن ِ کلام پر فخر کرنے لگیں تو تم اپنی حسین خاموشی پر ہی فخر کرنا۔”

(المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر ،ج۱، ص ۱۴۷)

Exit mobile version