ایک ایمان افروز واقعہ

ایک ایمان افروز واقعہ

حاکم الحدیث حضرت حافظ نیشا پور ی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مشہور صحابی رسول حضرت ابوایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے متعلق ایک نہایت رقت انگیز واقعہ بیان کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ حضور ِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک حدیث انہوں نے سنی تھی اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس حدیث کے سننے والوں میں مشہور صحابی حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے ۔ حضور پاک کے وصال شریف کے بعد جب فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا اور مصر و شام اور روم و ایران پر اسلامی اقتدار کا پرچم لہرانے لگا تو بہت سے صحابہ حجازِ مقدّس سے مفتوحہ ممالک میں منتقل ہوگئے ۔ انہی لوگوں میں حضرت عقبہ بن عامر بھی تھے جو مصر گئے اور وہیں سکونت پذیر ہوگئے ۔
حضرت ابو ایوب انصاری کو شدہ شدہ کسی طرح یہ معلوم ہوگیا کہ یہ جو حدیث میں نے حضور پاک سے سنی ہے اس کے سننے والوں میں حضرت عقبہ بن عامر بھی ہیں۔ تو صرف اس بات کا جذبۂ اشتیاق کشاں کشاں انہیں مدینے سے مصر لے گیا کہ حضرت عقبہ بن عامر سے اس بات کی توثیق کرکے وہ یہ کہہ سکیں کہ اس حدیث کے دوراوی ہیں ایک میں ہوں دوسرے عقبہ بن عامر ہیں۔
ان کے اس والہانہ سفر کا حال بھی بڑا ہی رقت انگیز اور روح پرور ہے ۔ فرماتے ہیں کہ جذبۂ شوق کی ترنگ میں کہساروں ، وادیوں اور دریائوں کو عبور کرتے ہوئے وہ مصر پہنچے ۔ کبر سنی کا عالم ، دشوار گزار سفر لیکن وارفتگی شوق کی بے خودی میں نہ بڑھاپے کا اضمحلال محسوس ہوا، نہ راستے کی دشواریاں حائل ہوئیں ۔ شب وروز چلتے رہے مہینوں کی مسافت طے کرکے جب مصر پہنچے تو سیدھے مصر کے گورنر حضرت مسلمہ بن مخلد انصاری کی رہائش گاہ پر نزولِ اجلال فرمایا۔ امیرِ مصر نے مراسمِ ملاقات کے بعد دریافت کیا:
’’ ‘مَاجَاء بِکَ یَا أَبَا أَیُّوْبَ؟ کس غرض سے تشریف لانا ہوا ابو ایوب ؟
جواب میں ارشاد فرمایا:
’’ حَدِیْثٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَمْ یَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے میں نے ایک حدیث سنی ہے اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس حدیثکے سننے والوں میں میرے اور عقبہ بن عامر

غَیْرِیْ وَغَیْرُعُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ فَابْعَثْ مَنْ یَّدُلُّنِیْ عَلَی مَنْزِلِہِ‘‘۔ (1) (معرفۃ علوم الحدیث)
کے سوا اب کوئی اس دنیا میں موجود نہیں ہے ۔ پس میرے ساتھ ایک ایسا آدمی لگادو جو مجھے ان کے گھر تک پہنچادے ۔
یعنی مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس میں اس لیے نہیں آیا ہوں کہ تم سے ملنا مقصود تھا بلکہ صرف اس لیے آیا ہوں کہ تم حضرت عقبہ بن عامر کے گھر تک میرے پہنچادینے کا انتظام کردو۔
ایک گدائے عشق کی ذراشانِ استغنا ملاحظہ فرمائیے کہ گورنر کے دروازے پر گئے ہیں لیکن ایک لفظ بھی اس کے حق میں نہیں فرماتے ۔ راوی کا بیان ہے کہ والئی مصر نے ایک جانکار آدمی ساتھ کردیا جو انہیں حضرت عقبہ بن عامر کے دولت کدے تک لے گیا۔ معانقہ کے بعد انہوں نے بھی پہلا سوال یہی کیا:
’’ مَا جَائَ بِکَ یَا أَبَا أَیُّوْبَ؟‘‘ کس غرض سے تشریف لانا ہوا ابو ایوب ؟
جواب میں فرمایا:
حَدِیْثٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَمْ یَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غَیْرِیْ وَغَیْرُکَ فِیْ سَتْرِالْمُؤْمِنِ قَالَ عُقْبَۃُ نَعَمْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ سَتَرَ مُؤْمِناً عَلَی خِزْیِۃٖ سَتَرَہٗ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ أَبُوْ أَیُّوبَ صَدَقْتَ۔
ایک حدیث میں نے رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنی ہے اور اس کا سننے والا میرے اور آپ کے سوا اب کوئی دنیا میں موجود نہیں ہے اور وہ حدیث مومن کی پردہ پوشی کے بارے میں ہے ۔ حضرت عقبہ نے جواب دیا کہ ہاں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے میں نے یہ حدیث سنی ہے کہ جو کسی رسوائی کی بات پر مومن کی پردہ پوشی کرتا ہے کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی پر دہ پوشی فرمائے
گا۔ حضر ت ابو ایوب نے فرمایا آپ نے سچ کہا یہی میں نے بھی سنا ہے ۔
اس کے بعد بیان کرتے ہیں:
’’ ثُمَّ انْصَرَفَ أَبُوأَیُّوبَ إِلَی رَاحِلَتِہِ فَرَکِبَھَا
اتنا سن کر حضرت ابوایوب اپنی سواری کے پاس آئے

رَا جِعاً إِلَی الْمَدِیْنَۃِ ‘‘
سوار ہوئے اور مدینہ کی طرف واپس لوٹ گئے ۔
گویا مصر کے دور دراز سفر کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ اپنے کان سے سنی ہو ئی بات دوسرے کی زبان سے سن لیں۔ حدیث دوست کی لذت شناسی کا یہی وہ جذبۂ شوق تھا جس نے مذہب اسلام کو مذہبِ عشق بنادیا ۔ حضرت امام حافظ نیشاپوری نے واقعہ کے خاتمہ پر رقت و گداز میں ڈوبا ہوا اپنا یہ تاثر سپردِ قلم کیا ہے ۔ لکھتے ہیں:
’’ فَھَذَا أَبُوأَیُّوبَ الْاَنْصَارِی عَلَی تَقَدُّمِ صُحْبَتِہِ وَکَثْرَۃِ سَمَاعِہِ مِنْ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رَحِلَ إِلَی صَحَابِیٍّ مِنْ أَقْرَانِہِ فِیْ حَدِیْثٍ وَاحِدٍ‘‘۔ (1)
یہ ابو ایوب انصاری ہیں جو صحابیت میں اَقدم اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے کثیر الروایۃ ہونے کے باوجود صرف ایک حدیث کے لیے اپنے معاصر سے ملنے گئے اور دور دراز کا سفر کیا ۔ (معرفۃ علوم الحدیث)

________________________________
1 – ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘، ص۸.

Exit mobile version