حکایت نمبر261: ایمان افروزخواب
حضرتِ سیِّدُنا شَقِیْق بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ رات کے پچھلے پہر مکۂ مکرمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا میں موْلِدِرَسُوْل(یعنی حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی پیدائش کی جگہ ) کے قریب میری ملاقات حضرت سیِّدُناا براہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم سے ہوئی۔ وہ ایک جگہ بیٹھے رو رہے تھے، میں ان کے قریب جاکر بیٹھ گیا اور کہا: ” اے ابواِسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق! خیر یت تو ہے، آپ کیوں رورہے ہیں؟”میں نے دوتین مرتبہ پوچھا تو فرمایا: ”اے شَقِیْق علیہ رحمۃ اللہ الرفیق ! اگر میں بتا دوں تو میرے معاملے کو چھپائے رکھو گے یا لوگوں سے بیان کر دو گے؟” میں نے کہا:”آپ بے فکر ہو کر بتائیں۔” فرمایا:” میرا نفس تیس سال سے مسلسل سِکْبَاج(یعنی گوشت اور سرکہ ملا کر پکایا ہوا سالن) کھانے کی خواہش کر رہا تھا۔ میں نے اسے تیس سال تک رو کے رکھا، آج رات بیٹھے بیٹھے مجھے اُو نگھ آئی تو دیکھا کہ ایک نوجوان ہاتھوں میں سبز پیالہ لئے کھڑا ہے جس سے گرم گرم سِکْبَاج کی خوشبو آرہی ہے، نوجوان نے وہ پیالہ میرے قریب کرتے ہوئے کہا : ”اے ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم ! یہ سکباج کھا لو۔” میں نے کہا: ”جس چیز کو میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے ترک کر چکا ہوں اسے ہر گز نہیں کھاؤں گا۔”
وہ کہنے لگا:” اگر یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے نہیں ملا توبے شک نہ کھا ؤ، ارے! یہ بھی تواللہ عَزَّوَجَلَّ کا عطاکر دہ ہے پھر تم کیوں نہیں کھا رہے۔” اب میرے پاس رونے کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔ میں زارو قطار رو نے لگا تو ا س نے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم کرے، یہ کھالو۔”میں نے کہا:” ہمیں یہ تاکید کی گئی ہے کہ جب تک معلوم نہ ہو کہ کھانا کن ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے تب تک اس کی طرف ہاتھ نہ بڑھاؤ۔” کہا : اے ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم! مجھے یہ کھانا دے کر کہا گیا: ” اے خضرعلیہ السلام! یہ کھانا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کے پاس لے جاکر اسے کھلاؤ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی جان پر رحم کیا کیونکہ انہوں نے عرصۂ دراز تک اپنے نفس کو سکباج نہ کھلایا او رصبر سے کام لیا۔” اے ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم! میں نے ملائکہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:” ایسا کون ہوگا کہ رزق دیاجائے اور وہ قبول نہ کرے اور ایسا کون ہے جو طلب کرے اور اسے عطا نہ کیاجائے؟” میں نے نوجوان سے کہا :” اگر واقعی یہ کھانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے آیا ہے اور معاملہ اسی طرح ہے جس طرح آپ نے بتایا تو پھر میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت سے انکار نہیں کرسکتا ۔ پھر میں کھانے کی طرف متوجہ ہوا تو اچانک ایک اور نوجوان نمودار ہوا۔ اس نے پہلے نوجوان (حضرت سیِّدُناخضر علیہ السلام) سے کہا:” اے خضرعلیہ السلام! آپ اپنے مُبَارَک ہاتھوں سے انہیں یہ کھانا کھلائیں ۔”
چنانچہ، حضرت سیِّدُناخضرعلٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے اپنے مُبَارَک ہاتھوں سے مجھے کھلانا شروع کیا یہاں تک کہ میں خوب سیر ہوگیا۔پھر میری آنکھ کھل گئی لیکن اس کھانے کی مٹھاس اب تک میں اپنے منہ میں محسوس کر رہا ہوں۔”حضرتِ سیِّدُنا
شَقِیق بن ابراہیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم فرماتے ہیں :”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ ایمان افر و ز خواب سن کر میں نے ان کی ہتھیلی چوم لی اور بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس ولئ کامل کو وسیلہ بناتے ہوئے اس طرح عرض گزار ہوا: ”اے بھوکوں کو ان کی پسندیدہ اشیاء کھلانے والے! اے مُحِبِّیْن کو اپنی محبت کے جام بھر بھر کر پلانے والے! کیا تیرے ہاں شَقِیق کا کوئی مرتبہ ہے؟ اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ ! تجھے اپنے اس ولی اور اس کے ہاتھ کا واسطہ! اور تجھے تیرے اس کرم کا واسطہ جو تو نے اپنے اس ولی پر فرمایا اپنے اس بندے پر بھی ایک نگاہِ کرم فرمادے جو تیرے فضل اور احسان کا محتاج ہے، اگر چہ وہ اس قابل نہیں کہ اس کو یہ نعمتیں عطا کی جائیں تُو محض اپنی رحمت سے فضل فرمادے ۔” جب میں دعا سے فارغ ہو ا تو حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم اُٹھ کر مسجدِ حرام کی طر ف چل دیئے اور میں بھی ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)