حکایت نمبر302: ا مامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی نگاہِ بصیرت

حکایت نمبر302: ا مامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی نگاہِ بصیرت

کروڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا،سراج الاُمّہ ،کاشف الغُمَّہ حضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگردِ رشید حضرت سیِّدُنا امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم بن حبیب علیہ رحمۃا اللہ الحسیب اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ابھی میں چھوٹاساتھاکہ میرے سرسے باپ کاسایہ اُٹھ گیا۔ گھریلو حالات سازگار نہ تھے۔ میری والدہ نے مجھے ایک دھوبی کے پاس بھیج دیا تاکہ وہاں کام کروں اورجو اجرت ملے اس سے گھر کا خرچہ چلتا رہے ۔ میں وہاں جاتا اورکام کرتا ۔ میں ایک مرتبہ علم وعمل کے روشن چراغ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حلقہ درس میں بیٹھ گیا۔ مجھے ان کی باتیں بہت پسند آئیں۔ چنانچہ، میں نے دھوبی کے پاس جانا چھوڑ دیا اوراس حلقۂ درس میں شریک ہونے لگا۔ میری والدہ کو معلوم ہوا تو مجھے وہاں سے لے گئی اوردھوبی کے پاس چھوڑدیا۔ میں چھُپ چھُپ کر امام صاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوتا جیسے ہی میری والدہ کو معلوم ہوتا مجھے وہاں سے اٹھا کر دھوبی کے پاس لے جاتی۔ حضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم میرا شوقِ علمی دیکھ کر میری طرف خاص توجہ فرماتے۔
جب معاملہ بڑھا تو ایک دن میری والدہ استاذِ محترم حضرت سیِّدُناامامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے پاس آئی اور کہا: ”میرے اس بچے کو آپ نے بگاڑ دیا ہے ۔ یہ بچہ یتیم ہے۔کوئی ایسا نہیں جو اس کی پرورش کرے ۔ میں سارا دن سُوت کاتتی ہوں جو اُجرت ملتی ہے اس سے اس کی پرورش کرتی ہوں ۔ اس امید پر کہ یہ بڑا ہوجائے اورکچھ کما کر لائے ۔ اسی لئے میں نے اسے دھوبی کے پاس بھیجا تھا کہ اس طرح کچھ نہ کچھ رقم مل جایا کرے گی اورہمارا گزارہ ہوتارہے گا۔اب یہ سب کچھ چھوڑ کر آپ کے پاس آبیٹھتا ہے ۔ ”
میری والدہ کی یہ باتیں سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا” اے خوش بخت!اپنے اس بچے کو علم کی دولت حاصل کرنے دے ، وہ دن دور نہیں کہ یہ باداموں اوردیسی گھی کا حلوہ اورعمدہ فالودہ کھائے گا۔” یہ سن کر میری والدہ بہت ناراض ہوئی اور کہا: ”لگتاہے بڑھاپے کی وجہ سے آپ کا دماغ چل گیاہے، ہم جیسے غریب لوگ باداموں اوردیسی گھی کا حلوہ کیسے کھاسکتے ہیں؟” یہ کہہ کر میری والدہ گھر چلی آئی ۔ میں حضرتِ سیِّدُنا امام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی بارگاہ میں حاضر رہ کر علمِ دین سیکھتا رہا۔ آپ رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ مجھ پر بھر پور توجہ فرماتے ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !آپ کی برکت سے مجھے علم و عمل کی بے انتہاء دولت نصیب ہوئی ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے رِفعت وبلندی عطا فرمائی۔ میرے محسن ومُرَبِّی استاذِ محترم دنیا سے پردہ فرما چکے تھے ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب خلیفہ ہارون الرشید نے عہدۂ قضاء میرے سپرد کردیا۔
خلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید اکثر میری دعوت کرتے اور اپنے ساتھ کھانا کھلاتے۔ ایک مرتبہ خلیفہ نے پُر تکلُّف دعوت کا اہتمام کیا ،انواع واقسام کے کھانے چُنے گئے ۔ خلیفہ نے با داموں اور دیسی گھی کا حلوہ اور عمدہ فالودہ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا :” اے امام ابویو سف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !یہ حلوہ کھائیے ، روز روز ایسا حلوہ تیارکروانا ہمارے لئے آسان نہیں ۔” یہ سن کر میں ہنسنے لگا۔ پوچھا:” آپ ہنس کیوں رہے ہیں ؟” میں نے کہا :” اللہ عَزَّوَجَلَّ خلیفہ کو سلامت رکھے ، میرے استاذِ محترم حضرتِ سیِّدُنا امام اَعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے برسوں پہلے میری والدہ سے فرمایا تھا کہ تمہارا یہ بیٹا باداموں اور دیسی گھی کا حلوہ اور فالودہ کھائے گا” آج میرے استاذِ محترم کا فرمان پورا ہوگیا۔ پھر میں نے اپنے بچپن کا سارا واقعہ خلیفہ کو سنایا تو وہ بہت متعجب ہوئے اور فرمایا: ”بے شک علم ضرور فائدہ دیتا اور دین ودنیا میں بلندی دِلواتا ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، جس چیز کو ان کے سر کی آنکھ نہ دیکھ سکتی اسے اپنی عقل کی آنکھ سے دیکھ لیا کرتے تھے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حکایت میں ہمارے لئے بے شمار مدنی پھول ہیں۔ علمِ دین، دنیا و آخرت میں رفعت وسُرخروئی کا باعث ہے۔ بڑے بڑے دنیا داروں کو وہ مقام و مرتبہ نہیں ملتا جو دین کے شیدائیوں کو بآسانی حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اولیاء کرام نگاہِ فراست سے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتے ہیں۔ استاذ ِکامل کی تو جۂ خاص انسان کو کیا سے کیا بنادیتی ہے ۔ ہمیں چاہے کہ علمِ دین خود بھی سیکھیں اور اپنی اولاد کو بھی سکھائیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیرِ انتظام علم وعمل کی دولت لوگو ں کو منتقل کرنے کے لئے کئی جامعات و مدارس بنام جامعۃالمدینہ اور مدرسۃ المدینہ قائم ہیں۔ یہاں نہ صرف علم کی لازوال دولت تقسیم ہوتی ہے بلکہ عمل کا جذبہ بھی دیا جاتا ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! ہزارہا طلباء وطالبات علمِ دین کی دولت سے منور ہو رہے ہیں اور سینکڑوں طلباء زیورِ علم وعمل سے آراستہ ہو کر اپنی اور ساری دنیا کے لوگو ں کی اصلاح کی کو شش کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ دعوتِ اسلامی کو دن دُگنی رات چُگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
؎ دعوتِ اسلامی کی قیُّوم دونوں جہاں میں مچ جائے دھوم اس پہ فدا ہو بچہ بچہ یا اللہ! میری جھولی بھر دے۔(آمین)

Exit mobile version