علم و عمل کا باہمی رشتہ

علم و عمل کا باہمی رشتہ

بیٹے!  اپنے
حوصلہ و ہمت کو بال و پر دے کر فضل و کمال کی فضاؤں میں مائل پرواز ہو جا۔دنیا میں
کچھ لوگ وہ ہیں جو زہد کے دروازے سے آگے نہیں بڑھنا چاہتے،اور کچھ لوگ تو( عمل سے
بے پروا ہو کر)محض علم کے پیچھے پڑ گئے،مگر اس سے آگے کچھ عالی بخت وہ ہیں جنھوں نے
علم کامل کے ساتھ عمل صالح کو بھی پروان چڑھایا۔
تیری معلومات کے لیے بتائے دیتا ہوں کہ مجھے تابعین
اور اُن کے بعد کے لوگوں کی سیرت وسوانح پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے،لیکن
چارنفوسِ قدسیہ سے بڑھ کر فضل و کمال کا حامل میں نے کسی کو نہ دیکھا : سعید بن مسیب
۹۴ھ)، سفیان ثوری(م۲۶۱ھ)،
حسن بصری(م
۱۱۰ھ) اور احمد بن حنبل(م۲۴۱ھ)-علیہم
الرحمۃ والرضوان- اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے عزم و اِرادے فولاد کی مانند تھے اور وہ
صحیح معنوں میں مردِ میداں تھے،مگر وہ حوصلے اور ہمتیں اب ہم میں جواب دے گئیں۔
اسلافِ کرام میں ایسے بہت ہوئے ہیں جو عزم و ایقان کے
دھنی تھے۔اگر تمہیں ان کے احوال و کوائف کی سچی جستجو ہو تو میری کتاب ’’صفۃ الصفوۃ‘‘
میں تلاش کر کو،ورنہ میں نے ’’اخبارِ سعید‘‘،اخبارِ سفیان‘‘ اور ’’اخبارِ احمد بن
حنبل‘‘ کے نام سے الگ الگ کتابیں بھی مرتب کی ہیں وہاں سے شہدِ معلومات کشید کر کو۔

(اپنے لختِ جگر کے لیے
مصنف ابن جوزی
مترجم علامہ محمدافروز القادری چریاکوٹی 
Exit mobile version