حکایت نمبر495: حکومت کے طلبگاروں کو نصیحتیں
حضرتِ سیِّدُناعبیداللہ بن محمدقُرَشِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”سابقہ لوگوں میں سے چند نیک لوگوں نے ایک کتاب کے بارے میں بیان کیاکہ اس میں بے شمارعبرت آموزباتیں اورفکرِ آخرت دلانے والی متعددحکایات واَمثال(مثالیں) ہیں۔ عقلمند اس کے مطالعہ سے آخرت کی طرف راغب ہوتااورفانی دنیاسے بیزارہوجاتاہے۔وہ کتاب” اُنطونس” کی طرف منسوب ہے ۔ ”اُنطونس ” کے بارے میں منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُناعیسیٰ روح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کے مُبَارَک زمانے کے بعدیہ ایک بادشاہ گزرا ہے ،جس نے تین سوبیس(320 )سال عمرپائی ۔جب وفات کاوقت آیاتواس نے اپنی سلطنت کے تین نیک وپارسااورصاحب علم سرداروں کوبلایا اورکہا:”تم جانتے ہوکہ میں اب کس حالت میں ہوں اورمجھے کیاواقعہ پیش آنے والاہے۔تم لوگ سلطنت کے عظیم و افضل لوگوں میں سے ہو۔میں نہیں جانتاکہ تم تینوں میں سے امورِسلطنت کے لئے کون زیادہ بہتررہے گا؟اس لئے میں نے قوم کے بہترین لوگوں میں سے چھ(6)افراد کومنتخب کیاہے، وہ تم میں سے جسے مناسب سمجھیں میرے بعداپنابادشاہ مقررکرلیں۔تم ان کے فیصلے کوبخوشی قبول کرلینا۔خبردار!اختلاف سے بچناورنہ تم خودبھی ہلاک ہوجاؤگے اوراپنی رعایاکوبھی ہلاکت میں مبتلاکردو گے ۔ ” تینوں نے کہا:” اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی عمردرازفرمائے ۔ ‘ ‘ باد شاہ نے کہا: ” موت ضرورآنی ہے اس سے بچانہیں جاسکتا۔تم میری باتوں پرضرورعمل کرنا۔” پھراسی رات بادشاہ کاانتقال ہوگیا۔جن چھ سرداروں کو نئے بادشاہ کے انتخاب کااختیاردیاگیاتھاوہ سردارکسی ایک پرمتفق نہ ہوئے بلکہ دو،دو،سردارہرایک کے ساتھ ہو گئے ۔ جب ملک کے بزرگوں اورحکماء نے یہ اختلاف دیکھاتو کہا:” تمہارے درمیان تو ابھی سے اختلاف شروع ہوگیا،سنو! ہمارے ملک میں ایک ایسا شخص ہے جو سب سے افضل ہے ،اس کی حکمت ودانائی میں کسی کوشک نہیں۔وہ جس کوبادشاہ مقرر کر دے گاوہ باعثِ برکت ہوگا ۔جاؤ! تم اس کے پاس چلے جاؤوہ فلاں پہاڑپرایک غارمیں رہتاہے ۔
چنانچہ، ان تینوں نے چھ سرداروں میں سے ایک کو عا ر ضی طورپرامورِ سلطنت کانگران بنایااورخود ”انطونس” نامی راہب کے پاس چلے گئے اورحقیقتِ حال بیان کرتے ہوئے کہا:”آپ ہم میں سے جس پرراضی ہوجائیں گے وہی بادشاہ ہوگا۔”راہب نے کہا: ”لوگوں سے دورہوکرمجھے کچھ فائدہ نہ پہنچا۔میری اورلوگوں کی مثال تواس شخص کی طرح ہے جس کے جانوروں کے باڑے میں بھیڑیئے گُھس آئے ہوں وہ بھیڑیوں سے جان بچاکرایک اورگھرمیں پہنچے تو وہاں شیرموجودہوں۔”یہ سن کران تینوں نے کہا:”ہم جس کام کے سلسلے میں آئے ہیں اس کی طرف ہمارے ملک کے اہلِ علم حضرات نے راہنمائی کی ہے،ان کی رائے ہے کہ آپ کے مشورے میں برکت وبھلائی ہوگی ۔برائے کرم! آپ ہم میں سے جس کو بہتر گمان کرتے ہیں اس کی تعیین فرمادیں تاکہ وہ
ملک کے نظام کوسنبھال سکے۔”راہب نے کہا:”میں نہیں جانتاکہ تم میں سے افضل کون ہے؟تم سب ایک ہی چیز کے طالب ہو اور اس طلب میں تم سب برابر ہو۔” تینوں میں سے ایک نے سوچاکہ اگرمیں اس عہدے سے بیزاری ظاہرکروں توشایدمجھے ہی بادشاہی سونپ دی جائے۔ چنانچہ، اس نے راہب سے کہا:”میں اس بادشاہی منصب کے بارے میں اپنے دونوں ساتھیوں سے ہرگز نہیں اُلجھوں گا۔” راہب نے کہا: ”میراتویہ گمان ہے کہ تیرے دونوں ساتھیوں میں سے کوئی بھی تیرے علیحدہ ہوجانے کو ناپسند نہیں کرتا۔اب تم ہی ان دونوں میں سے جسے چاہوبادشاہت کے لئے چن لواورمیرے کان میں بتادو،میں اُسی کوبادشاہ بنا دوں گا۔”اس نے راہب کی یہ بات سنی توکہا:”عالیجاہ ! آ پ جسے چاہیں اختیارفرمالیں میں یہ کام نہیں کرسکتا۔”راہب نے کہا: ”اس سے تویہی ظاہرہورہاہے کہ تم نے اپنی دستبرداری کے قول سے ر جوع کرلیاہے اورتم اب بھی بادشاہت کےمُتَمَنِّی(یعنی خواہش مند) ہو،اب پھرتم تینوں میری نظرمیں برابر ہو گئے ہو۔ میری باتیں بڑی غو رسے سننا!میں تمہیں نصیحت کروں گا،دنیااوراس میں تمہاری موجودگی کی مثالیں پیش کروں گا۔تم سب سمجھ دار اور اہلِ علم ہو۔مجھے بتاؤ کہ تمہاری بادشاہت اورتمہاری عمریں کتنی طویل ہوں گیں؟تم کتناعرصہ زندہ وباقی رہوگے ؟”تینوں نے کہا: ”ہمیں نہیں معلو م کہ ہم کتنا عرصہ زندہ رہیں گے؟ہوسکتاہے پلک جھپکنے کی مقداربھی زندہ نہ رہ سکیں۔”راہب نے کہا:”پھرتم ایک غیریقینی چیز کے دھوکے میں کیوں پڑے ہو؟”کہا:”صرف اس امیدپرکہ شایدہماری عمریں طویل ہوں۔”راہب نے پوچھا: ”اچھایہ بتاؤتمہاری عمرکتنی ہے ؟ ”کہا:”ہم میں سے سب سے چھوٹاپینتیس(35)سال اورسب سے بڑا چالیس (40) سال کا ہے ۔”
راہب نے پوچھا:”اچھایہ بتاؤ ،زیادہ سے زیادہ تم کتناعرصہ زندہ رہناپسند کرتے ہو؟” کہا:”چالیس سے زیادہ زندہ رہناہمیں پسند نہیں اورنہ ہی اتنی عمرکے بعدزندہ رہنافائدہ مندہے ۔”راہب نے کہا:”پھرتم اپنی بقیہ عمرمیں اس ملک کوحاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جوکبھی بربادنہ ہوگا؟ایسی نعمتیں کیوں نہیں چاہتے جوکبھی ختم نہ ہوں گی ؟ ایسی لذت وزندگی کو محبوب کیوں نہیں رکھتے جسے مو ت بھی ختم نہیں کرے گی؟نہ وہ زندگی ختم ہوگی ،نہ وہاں غم وپریشانی ہوگی نہ بیماری ۔تم ایسی نعمتوں کے لئے کیوں کوشش نہیں کر تے ؟ ” کہا:”ہمیں امیدہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے ہمیں یہ چیزیں ضرورملیں گی ۔”راہب نے کہا :”تم سے پہلے بھی ایسے لوگ تھے جوایسی ہی امیدیں کرتے تھے جیسی تم کرتے ہو۔وہ بھی ایسی ہی خواہش کرتے تھے جیسی تم کرتے ہو ۔انہوں نے انہی امیدوں کی وجہ سے اعمالِ صالحہ ترک کردیئے یہاں تک کہ انہیں موت آپہنچی پھرسزاان کامُقَدَّر بنی اورتم تک ان کی خبریں پہنچ چکی ہیں ۔ جسے معلوم ہو کہ سابقہ لوگوں کاکیاانجام ہوااس کے لئے مناسب نہیں کہ وہ بغیر عمل کے امید کرے ۔ اوریہ بات بالکل واضح ہے کہ جوشخص لَق ودَق(ویران)صحراء میں پانی ساتھ لئے بغیرسفرکرے توقریب ہے کہ پیاس کی شدت سے مرجائے ۔میں دیکھ رہاہوں کہ تم اپنے جسموں کوہلاک کرنے کے بارے میں امیدوں پربھروسہ کرتے ہولیکن
زندگی سنوار نے کے لئے امیدوں پربھروسہ نہیں کرتے ،جس گھرکی بربادی کاتمہیں علم ہے تم اسی کے حصول کے لئے کوشاں ہواورہمیشہ رہنے والے گھرکوعارضی دنیاکی وجہ سے چھوڑرہے ہو ۔ اچھا یہ بتاؤکہ جس شہر میں تم نے مکانات ومحلات تعمیرکئے اگرتم سے کہاجائے کہ عنقر یب اس شہرپرایک زبردست بادشاہ بہت بڑا لشکرلے کر حملہ آور ہوگاوہ تمام عمارتیں گرادے گا اور شہریوں کو قتل کردے گا ”تو کیا تم ایسے شہرمیں رہنا پسند کرو گے؟ کیاایسی عمارتوں میں رہائش اختیارکروگے؟”تینوں نے کہا:”نہیں ،ہم لمحہ بھرکے لئے بھی ایسے شہر میں رہناپسندنہیں کریں گے۔” راہب نے کہا: ”خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!تمام بنی آدم کامعاملہ کچھ ایساہی ہے ، عنقریب سب کوموت کا سا منا کرناپڑے گا، دُنیا کا ہر شہر بالآخرختم ہوجائے گا۔ہاں!میں تمہیں ایک ایسے شہرکے متعلق بتاتاہوں جوکبھی فنانہ ہوگا۔اس میں اَمن ہی اَمن ہوگا۔وہاں تمہیں کوئی ظالم اپنے ظلم کا نشانہ نہ بناسکے گااورنہ ہی کوئی جابر حاکم مُسَلَّط ہوگا،وہاں کے پھل وباغات کبھی ختم و کم نہ ہوں گے۔”
تینوں نے کہا:”آپ جوکہناچاہتے ہیں ہم سمجھ گئے ہیں،لیکن ہمارے نفس تودنیاکی محبت کاجام پی چکے ہیں، ا ب اس دائمی نعمتوں والے شہر(جنت)کا حصول اتنا آسان نہیں؟”راہب نے کہا:”بڑے سفروں کی وجہ سے بڑے بڑے منافع حا صل ہوتے ہیں۔ تعجب ہے کہ جاہل اورعالم اپنے آپ کوہلاک کرنے کے بارے میں برابرکیسے ہوگئے ۔مگرہاں!یہ بات ہے کہ جو چور چوری کی سزاسے ناواقف ہووہ اس چورسے زیادہ معذورہے جو سزاسے واقفیت کے باوجودچوری کرے ۔تعجب ہے اس شخص پر جواپنی آخرت کی بھلائی کے لئے مال خرچ نہیں کرتابلکہ دوسروں پرخرچ کرتاہے ۔میں اس دنیاکے لوگوں کودیکھ رہاہوں کہ یہ ا پنے لئے آخرت میں ذخیرہ تیارنہیں کرتے۔ایسالگتاہے جیسے انہیں اُن باتوں پریقین ہی نہیں جوانبیاء کرام علٰی نبیناوعلیہم الصلٰوۃ والسلام نے بتائیں اور جنہیں لے کروہ پاک ہستیاں اس دنیامیں مبعوث ہوئیں۔”تینوں نے کہا:”ہم اس قوم میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جو انبیاء کرام علٰی نبیناوعلیہم الصلٰوۃوالسلام کی لائی ہوئی باتوں میں سے کسی کی تکذیب کرتاہو۔”راہب نے کہا: ”مجھے بہت زیادہ تعجب ہے کہ لو گ کہتے تویہ ہیں کہ ہم تصدیق کرتے ہیں ،لیکن ان کاعمل ان کے قول کے خلاف ہے گویا وہ بغیراعمال کے ثواب کی امیدرکھتے ہیں۔” تینوں نے راہب سے کہا:”ہمیں بتایئے کہ آپ کوامورکی معرفت کس طرح حاصل ہوئی ؟ آپ کس طرح دنیاکی حقیقت سے آگاہ ہوئے ؟ ‘ ‘ کہا:”جب میں نے اس دنیاکی ہلاکت کے بارے میں غوروفکرکیاتویہ بات واضح ہوئی کہ ہلاکت چارایسی چیز و ں کی وجہ سے ہوتی ہے جن میں لذت رکھی گئی ۔اوریہ چاردروازے ہیں جوجسم میں ترکیب دیئے گئے ہیں۔ان میں سے تین سرمیں اور ایک پیٹ میں ہے۔دوآنکھیں،دونتھنے اورگلایہ سرکے دروازے ہیں۔اور چوتھی راہ جوپیٹ میں ہے وہ شرمگاہ ہے ۔ انہی دروازوں سے انسان پربلائیں اورمصیبتیں آتی ہیں ۔پھر جب میں نے غور وفکر کیاکہ تکلیف کے اعتبارسے کون سادروازہ زیادہ خفیف ہے ؟تو سب سے زیادہ خفیف دروازہ نتھنے محسوس ہوئے کیونکہ یہ خوشبو
اوردیگرسوگھنے والی چیزوں کو چا ہتے ہیں ۔ بقیہ تین دروازوں کے بارے میں غورکیاتوگلاکی مشقت سب سے زیادہ ہلکی محسوس ہوئی کیونکہ یہ جسم کا ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے سے غذاپیٹ تک پہنچتی ہے۔ اورجب پیٹ کابرتن بھرجاتاہے تویہ دروازہ برابرہوجاتاہے۔ لہٰذامیں نے نفسانی خواہشات والے کھانوں کوترک کردیااور صرف ایسی غذاپیٹ کے برتن میں ڈالی جس سے جسم سلامت رہ سکے ۔پھرمیں نے شرمگاہ کی مصیبت کے بارے میں غورکیاتویہ بات واضح ہوئی کہ شرمگاہ اورآنکھوں کاتعلق دل سے ہے اورآنکھوں کادروازہ شہوت کا ساقی ہے اوریہ دونوں جسم کی ہلاکت کابڑاسبب ہیں۔ لہٰذامیں نے پختہ ارادہ کرلیاکہ میں ان دونوں مصیبتوں کواپنے سے دورکردوں گا۔کیونکہ ان کوچھوڑدینامیرے نزدیک اپنے جسم کوہلاکت میں ڈالنے سے آسان ہے۔ خوب غوروخوض کے بعدیہی بات سامنے آئی کہ ان مصیبتوں سے چھٹکاراپانے کاسب سے بہترین حل لوگوں سے دوری اختیار کرنا ہے ۔ پھرمیں نے دنیاوالوں کوچھوڑااوراس مقام پرعبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول ہوگیا،اس طرح مجھے گناہوں کی مصیبت سے نجات مل گئی۔پھرمیں نے اپنے اندرچارلذَّتیں محسوس کیں تو چار اچھی خصلتوں سے انہیں دفع کر دیا۔”
پوچھا:”وہ لذ تیں کون سی ہیں؟اور وہ خصلتیں کیاہیں؟”راہب نے کہا:”لذتیں تو یہ ہیں (۱)۔۔۔۔۔۔مال کی لذ ت، (۲)۔۔۔۔۔۔اولادکی لذت،(۳)۔۔۔۔۔۔بیویوں کی لذت اور(۴)۔۔۔۔۔۔سلطنت کی لذت۔ اور چارخصلتیں یہ ہیں(۱) ۔۔۔۔۔۔فکر (۲)۔۔۔۔۔۔غم (۳) ۔۔۔۔۔۔خو ف اور(۴)۔۔۔۔۔۔اس موت کا ذکرجولذتوں کو ختم کرنی والی ہے۔حقیقت تویہ ہے کہ کسی بھی لذت میں کوئی خیر نہیں اور موت ہرلذت کوختم کردے گی ا ورکون ساگھرایساہے جواس مصیبتوں کے گھرسے زیادہ بُرااورشرانگیزہوگا؟سنو!تم لوگ اس شخص کی طرح ہوجاؤ جو اپنے شہرسے رزق کی تلاش میں نکلا توپیچھے سے دشمنوں نے اس شہرپرحملہ کردیا،وہاں کے مکینو ں کوسخت اِیذائیں پہنچائیں اور تمام مال واسباب پرقبضہ کرلیا۔لیکن وہ شخص پہلے ہی اپنے شہرسے چلاگیااوراس طرح تکلیفوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہا۔ سنو!مجھے اہلِ دنیا پربہت زیادہ تعجب ہوتاہے کہ وہ غم،پریشانی اورتکلیفوں کے ہوتے ہوئے لذات سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں؟تعجب اورشدیدتعجب ہے ان عقل مندوں پرجواپنے جسموں کی سلامتی نہیں چاہتے ۔ایسالگتاہے کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح ہلاک کرنا چاہتے ہیں جیسے ” سانپ والے”نے اپنے آپ کوہلاک کیا۔” پوچھا:”وہ ”سانپ والا”کون تھا ؟ ذرا تفصیل سے بتائیے!