حوض کوثر اور شفاعت
(۱) عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَا أَنَا أَسِیرُ فِی الْجَنَّۃِ إِذَا أَنَا بِنَہَرٍ حَافَتَاہُ قِبَابُ الدُّرِّ الْمُجَوَّفِ قُلْتُ مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ قَالَ ہَذَا الْکَوْثَرُ الَّذِی أَعْطَاکَ رَبُّکَ فَإِذَا طِینُہُ مِسْکٌ أَذْفَرُ۔ (1)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ ( معراج کی رات میں) جب میں جنت کی سیر کررہا تھا تو میرا گزر ایک نہر پر ہوا جس کے دونوں طرف مُجوّف یعنی خولدار موتی کے گنبد تھے ۔ میں نے پوچھا جبریل یہ کیا ہے ؟
ا نہوں نے کہا یہ وہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطا فرمایا ہے میں نے دیکھا کہ اس کی مٹی نہایت خوشبودار خالص مشک کی ہے ۔ (بخاری، مشکوۃ)
(۲) عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍوقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَوْضِی مَسِیرَۃُ شَہْرٍ وَزَوَایَاہُ سَوَاء ٌ ومَاؤُہُ أَبْیَضُ مِنْ اللَّبَنِ وَرِیحُہُ أَطْیَبُ مِنْ الْمِسْکِ وَکِیزَانُہُ کَنُجُومِ السَّمَاء مَنْ یَشْرَبُ مِنْہَا فلَا یَظْمَأُ أَبَدًا۔ (2)
حضرت عبداللہ بن عمر و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے کہا کہ سرکار ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میرے حوض (کوثر)کی مسافت ایک مہینہ (کا راستہ) ہے وہ مربع ہے یعنی اس کے چاروں کونے برابر ہیں۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ اس کے کوزے چمک اور زیادتی میں آسمان کے
ستاروں کے مثل ہیں جو شخص اس میں سے پئے گا پھر کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ (بخاری، مسلم)
(۳) عَنْ أَنَسٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں نے
وَسَلَّمَ أَنْ یَشْفَعَ لِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ أَنَا فَاعِلٌ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَأَیْنَ أَطْلُبُکَ قَالَ اُطْلُبْنِی أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِی عَلَی الصِّرَاطِ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عَلَی الصِّرَاطِ قَالَ فَاطْلُبْنِی عِنْدَ الْمِیزَانِ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عِنْدَ الْمِیزَانِ قَالَ فَاطْلُبْنِی عِنْدَ الْحَوْضِ فَإِنِّی لَا أُخْطِیُٔ ہَذِہِ الثَّلَاثَ الْمَوَاطِنَ۔ (1)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے درخواست کی کہ حضور قیامت کے دن میری سفارش فرمائی جائے ۔ سرکار نے فرمایا میں کروں گا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں حضور کو کہاں تلاش کروں گا۔ سرکار نے فرمایا پہلے مجھ کو پل صراط پر تلاش کرنا میں نے عرض کیا اگر حضور پل صراط پر نہ ملیں فرمایا تو میزان پر ۔ میں نے عرض کیا اگر حضور میزان پر بھی نہ ملیں فرمایا تو پھر حوضِ کوثر پر، میں ان تین جگہوں کو نہیں چھوڑوں گا ( یعنی ان مقامات میں سے کسی ایک جگہ ضرور ملوں گا)۔ (ترمذی ، مشکوۃ)
d عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ شَفَاعَتِی لِأَہْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِی۔ (2)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ میری شفاعت ثابت ہے میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ۔ (ترمذی، ابو داود، مشکوۃ)
e عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَانِی آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّی فَخَیَّرَنِی بَیْنَ أَنْ یَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِی الْجَنَّۃَ وَبَیْنَ الشَّفَاعَۃِ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَۃَ وَہِیَ لِمَنْ مَاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللَّہِ شَیْئًا۔ (3)
حضرتِ عوف بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میر ے پاس خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آیا تو اس نے مجھے اختیار دیا کہ یا تو میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا میں شفاعت کو اختیار کروں تو میں نے شفاعت کو منظور کیا ، میری شفاعت ہر اس شخص کے
لیے ہوگی جو اس حال میں مرے کہ اس نے کسی کو خدائے تعالیٰ کا شریک نہ مانا ہو۔ (ترمذی، مشکوۃ)
f عَنْ عِمْرَانَ بْن حُصَیْنٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم ا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم یَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِیْ مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَتِیْ یُسَمَّوْنَ الْجَہَنَّمِیِّیْنَ۔ (1)
حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سر کار ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میری امت کی ایک جماعت میری شفاعت کی بدولت نارِ دوزخ سے نکالی جائے گی جس کا نام جہنمی پڑا ہواتھا۔ (بخاری، مشکوۃ)
g عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْفَعُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثَلَاثَۃٌ الْأَنْبِیَائُ ثُمَّ الْعُلَمَائُ ثُمَّ الشُّہَدَاءُ۔ (2)
حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ ا لصلوۃوالتسلیم نے فرمایا کہ قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام پھر علمائے دین۔ پھر شہدائے اسلام۔ ( ترمذی، مشکوۃ)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’تخصیص شفاعت بہ ایں سہ گروہ بجہت زیادت فضل و کرامت ایشان ست والا ہمہ اہلِ خیراز مسلماناں را ثابت ست‘‘۔ (3)
یعنی ان تین گروہ کے ساتھ شفاعت کی تخصیص ان کے فضل و بزرگی کی زیادتی کے سبب ہے ورنہ ہر اہلِ خیر مسلماناں ( مثلاً سچا حاجی، باعمل حافظ) کے لیے ( بھی شفاعت کا حق) ثابت ہے (اشعۃ اللمعات، جلد چہارم، ص۴۰۸)
(۸) عَنْ أَبِی سَعِیدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ مِنْ أُمَّتِی مَنْ یَشْفَعُ لِلْفِئَامِ
حضرت ابوسعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ میری امت
وَمِنْہُمْ مَنْ یَشْفَعُ لِلْقَبِیلَۃِ وَمِنْہُمْ مَنْ یَشْفَعُ لِلْعُصْبَۃِ(1)وَمِنْہُمْ مَنْ یَشْفَعُ لِلرَّجُلِ حَتَّی یَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ۔ (2)
میں سے بعض لوگ کئی جماعت کی شفاعت کریں گے اور بعض لوگ ایک قبیلہ کی ، اور بعض لوگ دس سے چالیس کی شفاعت کریں گے اور بعض لوگ صرف ایک آدمی کی۔ یہاں تک کہ میری کل امت جنت میں داخل ہوجائے گی۔ (ترمذی، مشکوۃ)
i عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثُمَّ یَصْدُرُونَ مِنْہَا بِأَعْمَالِہِمْ فَأَوَّلُہُمْ کَلَمْحِ الْبَرْقِ ثُمَّ کَالرِّیحِ ثُمَّ کَحُضْرِ الْفَرَسِ ثُمَّ کَالرَّاکِبِ فِی رَحْلِہِ ثُمَّ کَشَدِّ الرَّجُلِ ثُمَّ کَمَشْیِہِ۔ (3)
حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ لوگ جہنم کی آگ کو (پل صراط سے گزر کر) عبور کریں گے ۔ پھر اپنے اعمال صالحہ کے مطابق جہنم(کی لپیٹ وغیرہ) سے نجات پائیں گے تو ان میں سے جو سب سے بہتر ہوں گے وہ بجلی چمکنے کے مانند ( پل صراط سے ) گزر جائیں گے ۔ پھر ہوا کے مثل پھر دوڑنے والے گھوڑے کی طرح، پھر اونٹ سوار کے مانند پھر دوڑنے والے آدمی کی طرح پھر پیدل چلنے کے مثل ۔ (ترمذی، دارمی، ابوداود)
انتباہ:
(۱)…قیامت قائم ہونا حق ہے اس کا انکار کرنے والا کافر ہے ۔ (4) (بہار شریعت)
(۲)…قیامت کے دن لوگ اپنی اپنی قبروں سے ننگے بدن بغیر ختنہ شدہ اٹھیں گے ، کوئی پیدل ہوگا کوئی سوار اور کافر منہ کے بل چلتے ہوئے میدانِ حشر کو جائیں گے کسی کو فرشتے گھسیٹ کر لے جائیں گے ۔ میدانِ حشر ملک شام کی سرزمین پر قائم ہوگا ا س دن زمین تانبے کی ہوگی ۔ سورج صرف ایک میل کے فاصلے پر ہوگا۔ ابھی چار ہزار برس کی راہ کے فاصلہ پر ہے اور اس کی پیٹھ دنیا کی طرف ہے قیامت کے دن اس کا منہ ا س طرف
ہوگا گرمی اور تپش سے بھیجے کھولتے ہوں گے ۔ پسینہ اس کثرت سے نکلے گا کہ اوپر چڑھے گا کسی کے ٹخنوں تک ہوگا۔ کسی کے گھٹنوں تک ، کسی کے کمر ، کسی کے سینہ، کسی کے گلے تک اور کافر کے تو منہ تک چڑھ کر مثل لگام کے جکڑ جائے گا جس میں وہ ڈبکیاں کھائے گا اور گرمی کی حالت میں پیاس کی جو کیفیت ہوگی وہ محتاج بیان نہیں ، زبانیں سوکھ کر کانٹا ہوجائیں گی اور بعضوں کی زبانیں منہ سے باہر نکل آئیں گی۔ ان مصیبتوں کے باوجود کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ ہوگا۔ بھائی سے بھائی بھاگے گا ماں باپ اولاد سے پیچھا چھڑائیں گے ۔ ہر ایک اپنی اپنی مصیبت میں گرفتار ہوگا کوئی کسی کا مددگار نہ ہوگا۔ قیامت کا دن جو کہ پچاس ہزار برس کا ہوگا اس پریشانی کی حالت میں قریب آدھے کے گزر جائے گا اب اہلِ محشر مشورہ کریں گے کہ اپنا کوئی سفارشی ڈھونڈنا چاہیے جو ہم کو ان مصیبتوں سے رہائی دلائے لوگ گرتے پڑتے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ اے حضرت آدم !آپ ابوالبشر ہیں خدائے تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا۔ ہم لوگ سخت پریشانی میں مبتلا ہیں آپ ہماری شفاعت کیجیے کہ خدائے تعالیٰ ہمیں اس سے نجات بخشے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام فرمائیں گے ۔ یہ میرا مر تبہ نہیں تم کسی اور کے پاس جائو۔ لوگ حضرتِ نوح عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان کے فضائل بیان کرکے عرض کریں گے کہ آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت کیجیے ۔ یہاں سے بھی وہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم کسی اور کے پاس جائو ۔ مختصر یہ کہ لوگ حضرت ابراہیم، حضرت موسی وغیرہ جلیل القدر انبیاء کرام علیہم السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شفاعت کے لیے گریہ وزاری کریں گے مگر ہر جگہ سے یہی جواب ملے گا کہ یہ میرا رتبہ نہیں تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ یہاں تک کہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میں اس لائق نہیں تم کسی اور کے پاس جائو ، لوگ عرض کریں گے آپ ہمیں کس کے پاس بھیجتے ہیں۔ فرمائیں گے تم ان کے حضور حاضر ہو جن کے ہاتھ پر فتح رکھی گئی جو آج بے خوف ہیں اور وہ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں تم محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو وہ خاتم النبین ہیں۔ وہی آج تمہاری شفاعت فرمائیں گے اب لوگ پھرتے پھراتے ٹھوکریں کھاتے روتے چلاتے دہائی دیتے ہوئے شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین جناب احمد مجتبی محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضرہو کر شفاعت کے لیے عرض کریں گے ۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ارشاد فرمائیں گے ۔ أَنَا لھَا یعنی شفاعت کے لیے میں ہوں۔ یہ فرما کر بارگاہِ الہٰی میں سجدہ کریں گے ۔ ارشاد ہوگا:
یَا مُحَمَّدُ اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہ
یعنی اے محمد!اپنا سر اٹھائو اور کہو تمہاری بات سنی
وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ۔ (1)
جائے گی اور جو مانگو گے ملے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت مقبول ہوگی۔ اب شفاعت کا سلسلہ شروع ہوجائے گا یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ سے بھی کم ایمان ہوگا سرکار ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی بھی شفاعت فرمائیں گے ۔
أَللَّہُمَّ ارْزُقْنَا وَوَالِدَیْنَا وَأَسَاتِذَتَنَا وَمَشَایِخَنَا وَتَلاَمِذَتَنَا وَأَحْبَابَنَا وَجَمِیْعَ أَھْلِ السُّنَّۃِ شَفَاعَۃَ حَبِیْبِکَ الْمُصْطَفَے وَنَبِیِّکَ الْمُجْتَبیَ عَلَیْہِ التحیَّۃُ وَالثَّنَاء۔
(۳)…شفاعت حق ہے اس کا انکار کرنا بدمذہبی و گمراہی ہے جیسا کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ اِنکارِ شفاعت بدعت و ضلالت ست چنانکہ خوارج وبعض معتزلہ بداں رفتہ اند۔ (2) (اشعۃ اللمعات ، جلد چہارم ، ص ۴۰۸)
اور حضرت مّلا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی فرماتے ہیں کہ:
’’فِی شَرحِ مسلم للنووی قَالَ الْقَاضِی عَیَاض رَحمہ اللَّہُ تَعَالَی مَذْہَبُ أَھلِ السُّنَّۃِ جَوَازُ الشَّفَاعۃِ عَقلاً وَوُجُوبُھَا سَمعًا لِصَریحِ قَولہ تَعَالی{ یَوْمَىٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَهٗ قَوْلًا} وَقَد جَاء تِ الْآ ثَار الَّتِی بَلَغتْ بِمَجمُوعِھَا التَّواترَ لِصحَّۃِ الشَّفَاعَۃِ فِی الآخِرَۃِ وَأَجْمَع السلفُ الصَّالِحُونَوَمَنْ بَعد ھُم مِنْ أَھلِ السنَّۃِ عَلَیْھَا‘‘(3)
یعنی امام نووی کی کتاب شرح مسلم میں ہے کہ امام قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ اہلِ سنت و جماعت کا مذہب یہ ہے کہ عقلاً شفاعت جائز ہے اور اس کا وجوب سماعی ہے اس لیے کہ خدائے تعالیٰ نے کھلم کھلا ارشاد فرمایا کہ {یَوْمَىٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَهٗ قَوْلًا}(سورۃ طہ، آیۃ ۱۰۹) یعنی اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی مگر اس شخص کی جسے رحمن نے (شفاعت کرنے کا) اذن دے دیا ہو اوراس کی بات پسند فرمائی ہو۔
اور ( اس آیت کریمہ کے علاوہ بہت سی) حدیثیں وارد ہیں۔ جن کا مجموعہ آخرت میں شفاعت کی صحت پر حد تواتر کو پہنچ چکا ہے ۔ شفاعت کے حق ہونے پر سلف صالحین اور ان کے بعد اہلِ سنت و جماعت کا اجماع ہے ۔
(مرقاۃ، جلد پنجم، ص ۲۷۷)
(۴)…شفاعت کی چند قسمیں(1)ہیں جیسا کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ:
’’نوع اول شفاعت عظمٰی ست کہ عام ست مر تمامہ خلائق را و مخصوصست بہ پیغمبر ما صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہ ہیچ کس را از انبیاء صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیہم مجال جرات وا قدام براں نباشد وآں برائے اراحت وتخلیص از طول وقوف در عرصات وتعجیل حساب و حکم کردگار تعالی وتقدس وبرآوردن ازاں شدت ومحنت دوم از برائے درآوردن
یعنی شفاعت کی پہلی قسم شفاعت عظمیٰ ہے جو کہ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے اور ہمارے پیغمبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ خاص ہے یعنی انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام میں سے کسی اور نبی کو اس پرجرأت اور پیش قدمی کی مجال نہ ہوگی اور یہ شفاعت لوگوں کو آر ام پہنچانے ، میدانِ حشر میں دیر تک ٹھہرنے سے چھٹکارا دلانے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے فیصلہ اور حساب کے جلدی کرنے اور قیامت کے دن کی سختی و پریشانی سے نکالنے کے لیے ہوگی۔ دوسری قسم کی شفاعت ایک قوم کو بے حساب جنت میں داخل کرنے
قومے در بہشت بغیر حساب و ثبوت آں نیز وارد شدہ برائے پیغمبر ما ونزد بعضے مخصوص بحضرت او ست سوم در اقوامے کہ حسنات وسیئات ایشاں برابر باشد وبامدادِ شفاعت بہ بہشت درآیند چہارم قومے کہ مستحق و مستوجب دوزخ شدہ باشند پس شفاعت کند وایشاں را بہ بہشت در آرد پنجم برائے رفع درجات و زیادت کرامات ششم در گناہ گاراں کہ بدوزخ درآمدہ باشند بہ شفاعت بر آیند وایں شفاعت مشترک ست میاں سائر انبیاء وملائکہ وعلماء وشہداء ۔ ہفتم در استفتاح جنت ہشتم درتخفیف عذاب از انہا کہ مستحق عذاب مخلد شدہ باشند نہم برائے اہلِ مدینہ خاصہ دہم برائے زیارت کنندگان قبر شریف بروجہ امتیاز واختصاص‘‘۔ (1)
کے لیے ہوگی اور یہ شفاعت بھی ہمارے پیغمبر سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے ثابت ہے ۔ اور بعض لوگوں کے نزدیک یہ شفاعت حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے ساتھ خاص ہے ۔ تیسری قسم کی شفاعت ان لوگوں کے بار ے میں ہوگی کہ جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ اور شفاعت کی امداد سے جنت میں داخل ہوں گے ۔ چوتھی قسم کی شفاعت ان لوگوں کے لیے ہوگی جو کہ دوزخ کے مستحق اور حق دار ہوچکے ہوں گے ۔ تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شفاعت فرما کر ان کو جنت میں لاویں گے ۔ پانچویں قسم کی شفاعت مرتبے کی بلندی اور بزرگی کی زیادتی کے لیے ہوگی۔ چھٹی قسم کی شفاعت ان گنہگاروں کے بارے میں ہوگی جو کہ جہنم میں پہنچ چکے ہوں گے اور شفاعت کی وجہ سے نکل آئیں گے اور اس شفاعت میں دیگر انبیائے کرام علیہم السلام ، فرشتے ، علماء اور شہداء بھی شریک ہوں گے ۔ ساتویں قسم کی شفاعت جنت کھولنے کے بارے میں ہوگی۔ آٹھویں قسم کی شفاعت ان لوگوں کے عذاب کی تخفیف کے بارے میں ہوگی جو کہ دائمی عذاب کے مستحق ہوں گے ۔ نویں قسم کی شفاعت خاص کر مدینہ منورہ والوں اور سرکارِ اقدس کے روضئہ انور کی زیارت کرنے والوں کے لیے
اختصاص و امتیاز کے طریقہ پر ہوگی۔ (اشعۃ اللمعات، جلد چہارم، ص۳۸۲)
(۵)…حوض کوثر جو کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مرحمت ہوا حق ہے ۔ (1)(بہار شریعت)
(۶)…قیامت کے دن ہر شخص کو اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اور برائیوں کا بائیں ہاتھ میں۔ اور کافر کا نامۂ اعمال سینہ توڑ کر اس کابایاں ہاتھ اس کے پس پشت نکال کرپیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ (2) (بہار شریعت)
(۷)…حساب حق ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔ (3) (بہار شریعت)
(۸)…میزان حق ہے اس پر لوگوں کے نیک و بداعمال تو لے جائیں گے نیکی یا بدی کا پلہ بھاری ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اُوپر اٹھے یعنی دنیا کے جیسا معاملہ نہیں ہوگا کہ جو بھاری ہوتا ہے نیچے جھکتا ہے ۔ (4)
(بہار شریعت)
(۹)… حضورِا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خدائے تعالیٰ مقامِ محمود عطا فرمائے گا کہ تمام اولین و آخرین آپ کی تعریف کریں گے ۔ (5)
(۱۰)…سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایک جھنڈا مرحمت ہوگا جس کا نام لواء الحمد ہے ۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام سے لے کر قیامت تک کے سب مومنین اسی جھنڈے کے نیچے ہوں گے ۔ (6)
٭…٭…٭…٭
________________________________
1 – حضرت ملا علی قاری علیہ رحمۃاللہ الباری فرماتے ہیں ’’اَلشَّفَاعَۃُ خَمْسَۃُ أَقْسامٍ (أَوَّلھَا) مُخْتَصَّۃٌ بِنَبیِّنَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھِیَ الارَاحَۃُ مِنْ ہَوْلِ الْمَوْقِفِ وَتَعجِیْلُ الْحِسَابِ (الثَّانِیَۃ) فِی إِدْخَال قَومِنِ الْجَنَّۃَ بِغَیْر حِسَابٍ وَھَذِہِ أَیضًا وَرَدَتْ فِی نَبِیِّنَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (الثالثۃ) اَلشَّفَاعَۃُ لِقَومٍ اِسْتوْجَبُوْا النَّارَ فَیشْفَعُ فِیْھِمْ نَبِیُّنَا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ شَاء اللَّہُ تَعَالی (الرابعۃ) فِیْمَن دَخَلَ النَّارَ مِن الْمُذْنِبِیْنَ فَقَدْ جَائَ تِ الْآحَادِیْثُ بإخْرَاجِھِم مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَۃِ نَبِیِّنَا وَالْمَلَائِکَۃِ وَإِخْوَانِھِم مِنَ الْمُومِنِیْنَ ثُمَّ یُخْرِجُ اللَّہُ تَعَالی کُلَّ مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلاَّ اللَّہ (الخامسۃ) اَلشَّفَاعَۃُ فِی زِیَادَۃ الدَّرَجَاتِ فِی الْجَنَّۃ لأَھْلِھَا وَھَذِہِ لَا تُنْکَرُھَا أَیضًا۔ (مرقاۃ، جلد پنجم، ص ۲۷۸) ( مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، کتاب صفۃ القیامۃ إلخ، الحدیث: ۵۵۹۸، ج۹، ص۵۶۴)
________________________________
1 – ’’صحیح البخاری‘‘، کتاب الرقاق، باب فی الحوض، الحدیث: ۶۵۸۱، ج۴، ص۲۶۸، ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب أحوال القیامۃ وبدء الخلق، باب الحوض إلخ، الحدیث: ۵۵۶۶، ج۲، ص۳۱۸.
2 – ’’صحیح البخاری‘‘، کتاب الرقاق، باب فی الحوض، الحدیث: ۶۵۷۹، ج۴، ص ۲۶۷، ’’صحیح مسلم‘‘ ، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبینا وصفاتہ، الحدیث: ۲۷۔ (۲۲۹۲) ص:۱۲۵۶.