حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اعلانِ توحید
مفسرین کا بیان ہے کہ ”نمرود بن کنعان ”بڑا جابر بادشاہ تھا۔ سب سے پہلے اسی نے تاج شاہی اپنے سر پر رکھا۔ اس سے پہلے کسی بادشاہ نے تاج نہیں پہنا تھا یہ لوگوں سے زبردستی اپنی پرستش کراتا تھا کاہن اور نجومی اس کے دربار میں بکثرت اس کے مقرب تھے۔ نمرود نے ایک
رات یہ خواب دیکھا کہ ایک ستارہ نکلا اور اس کی روشنی میں چاند، سورج وغیرہ سارے ستارے بے نور ہو کر رہ گئے۔ کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب کی یہ تعبیر دی کہ ایک فرزند ایسا ہو گا جو تیری بادشاہی کے زوال کا باعث ہو گا۔ یہ سن کر نمرود بے حد پریشان ہو گیا اور اس نے یہ حکم دے دیا کہ میرے شہر میں جو بچہ پیدا ہو وہ قتل کردیا جائے۔ اور مرد عورتوں سے جدا رہیں۔ چنانچہ ہزاروں بچے قتل کردیئے گئے۔ مگر تقدیراتِ الٰہیہ کو کون ٹال سکتا ہے؟ اسی دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہو گئے اور بادشاہ کے خوف سے ان کی والدہ نے شہر سے دور پہاڑ کے ایک غار میں ان کوچھپا دیا اسی غار میں چھپ کر ان کی والدہ روزانہ دودھ پلا دیا کرتی تھیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ سات برس کی عمر تک اور بعضوں نے تحریر فرمایا کہ سترہ برس تک آپ اسی غار میں پرورش پاتے رہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( روح البیان،ج۳،ص۵۹،پ۷،الانعام:۷۵)
اس زمانے میں عام طور پر لوگ ستاروں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ ایک رات آپ علیہ السلام نے زہرہ یا مشتری ستارہ کو دیکھا تو قوم کو توحید کی دعوت دینے کے لئے آپ نے نہایت ہی نفیس اور دل نشین انداز میں لوگوں کے سامنے اس طرح تقریر فرمائی کہ اے لوگو! کیا ستارہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ستارہ ڈوب گیا تو آپ نے فرمایا کہ ڈوب جانے والوں سے میں محبت نہیں رکھتا۔ پھر اس کے بعد جب چمکتا چاند نکلا تو آپ نے فرمایا کہ کیا یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں سے ہوتا۔ پھر جب چمکتے دمکتے سورج کو دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو ان سب سے بڑا ہے، کیا یہ میرا رب ہے؟ پھر جب یہ بھی غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ اے میری قوم! میں ان تمام چیزوں سے بیزار ہوں جن کو تم لوگ خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔ اور میں نے اپنی ہستی کو اس ذات کی طرف متوجہ کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا ہے۔
بس میں صرف اسی ایک ذات کا عابد اور پجاری بن گیا ہوں اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ پھر ان کی قوم ان سے جھگڑا کرنے لگی تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے خدا کے بارے میں جھگڑتے ہو؟ اس خدا نے تو مجھے ہدایت دی ہے اور میں تمہارے جھوٹے معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا۔ سن لو! بغیر میرے رب کے حکم کے تم لوگ اور تمہارے دیوتا میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ میرا رب ہر چیز کو جانتا ہے۔ کیا تم لوگ میری نصیحت کو نہیں مانو گے؟ اس واقعہ کو مختصر مگر بہت جامع الفاظ میں قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے :۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰکَوْکَبًا ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ ﴿76﴾فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَئِنۡ لَّمْ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیۡنَ ﴿77﴾فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ہٰذَاۤ اَکْبَرُ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوۡنَ ﴿78﴾اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۚ79﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ پھر جب ان پر رات کا اندھیرا آیا ایک تارا دیکھا بولے اسے میرا رب ٹھہراتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا بولے مجھے خوش نہیں آتے ڈوبنے والے پھر جب چاند چمکتا دیکھا بولے اسے میرا رب بتاتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں ہوتا پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا بولے اسے میرا رب کہتے ہو۔ یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اے قوم میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنائے ایک اسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں نہیں۔(پ7،الانعام:76تا79)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
درس ہدایت:۔غور کیجئے کہ کتنا دلکش طرزِ بیان اور کس قدر مؤثر طریقہ استدلال ہے کہ نہ کوئی سخت کلامی ہے، نہ کسی کی دل آزاری، نہ کسی کے جذبات کو ٹھیس لگا کر اس کو غصہ دلانا ہے،
بس اپنے مقصد کو نہایت ہی حسین پیرایہ اور خوبصورت انداز میں منکرین کے سامنے دلیل کے ساتھ پیش کردینا ہے۔ ہمارے سخت گو اور تلخ زبان مقررین کے لئے اس میں ہدایت کا بہترین درس ہے۔ مولیٰ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے آمین۔