حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے نصیحت آموز فرامین
حضرت سیدناکمیل بن زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:”ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے میرا ہاتھ پکڑ ا اور مجھے جنگل کی طر ف لے گئے ۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ بیٹھ گئے اور ایک آہِ سرد بھر کر فرمایا: ”اے کمیل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)!یہ دل بر تنوں کی مانند ہیں، ا ن میں سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ نصیحت قبول کرنے والا ہو۔ لہٰذا میں تجھے جو نصیحتیں کرو ں انہیں اچھی طر ح یاد رکھنا پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے فرمایا :”اے کمیل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)!لوگ تین طر ح کے ہیں :
(۱) عالم ربانی
(۲) راہ نجات(یعنی دین ) کے طلب گار
(۳) بیوقوف وکمتر لوگ :جو ہر بلانے والے کی بات پر کان دھریں ، ہر ہواکی طر ف جھک جائیں، علم کے نور سے کبھی منور نہ ہوئے ہوں ، اور نہ ہی کسی مضبو ط شئے کو پناہ گاہ بنایا ہو۔
اے کمیل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! علم مال ودولت سے بہتر ہے کیونکہ علم تیری حفاظت کرتا ہے جبکہ مال کی حفاظت تجھے کرنی پڑتی ہے، مال خرچ کر نے سے کم ہوتا ہے جبکہ علم خر چ کرنے سے بڑھتا ہے ،علم حاکم ہے اور مال محکوم ۔
اے کمیل(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! عالم کی محبت دین ہے اوراس محبت کی وجہ سے بہت بڑا اجردیاجائے گا۔علم دنیاوی زندگی میں عالم کونیک اعمال کی ترغیب دلاتاہے اوراس کی وفات کے بعداس کابہترین سرمایہ ہے جبکہ مال سے ملنے والی آسائشیں اس مال کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہیں ۔
اے کمیل بن زیاد(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! بڑے بڑے مال دار زندہ ہونے کے با وجود مُردوں کی طر ح ہیں، علماء کرام اگرچہ دنیا سے پر دہ کر چکے لیکن جب تک زمانہ باقی ہے تب تک وہ باقی رہیں گے ، ان کی آنکھیں اگر چہ بند ہوگئیں لیکن ان کی عظمت اورشان وشوکت آج بھی دلوں میں زندہ و باقی ہے۔
پھر حضرت سیدنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنے سینے کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:”افسوس !یہاں علم تو بہت جمع ہے، کا ش! مجھے کوئی اس کا اہل مل جائے تاکہ میں سارا علم اسے دے دوں، پھر فرمایا :”ہاں! میری کچھ لوگو ں سے ملاقات ہوئی لیکن میں ان سے مطمئن نہ ہوا ، وہ دین کو دنیا کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور اللہ عزوجل کی نعمتو ں کے ذریعے اس کے بندوں پر بڑھائی چاہتے ہیں،اوراپنے دلائل کے ذریعے اللہ عزوجل کی تقدیر پر غالب آنا چاہتے ہیں ۔ کچھ لوگ ایسے ملے جو اہلِ حق کے فرمانبر دار تو ہیں لیکن ان میں بصیرت وحکمت نہیں، تھوڑے سے شک وشبہ سے ان کا دل ڈگمگاجاتا ہے ، نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے ، بس خواہشات نفسانیہ کے پیچھے پڑے ہیں ، ہر وقت مال ودولت جمع کرنے میں مگن ہیں ۔دین کے مبلغین سے انہیں کوئی غرض نہیں ، ایسے ہی لوگ ہیں جو چو پایوں کی طر ح ہیں۔ اسی طرح اہل علم کے اٹھنے سے علم بھی اٹھتا جارہاہے ۔
لیکن دنیا میں ہروقت ایسے لوگ بھی موجود رہتے ہیں جو اللہ عزوجل کی حدو د کو قائم کرنے والے ہیں تا کہ اللہ عزوجل کی نشانیا ں بالکل معدو م نہ ہوجائیں۔ ان میں سے کچھ تو مشہور ومعرو ف ہوتے ہیں اور کچھ پوشیدہ ۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں ، ایسے لوگو ں کی اللہ عزوجل کے ہاں بہت قدرو منزلت ہے، انہیں کے ذریعے اللہ عزوجل اپنی نشانیوں کی حفاظت فرماتا ہے ۔یہاں تک کہ یہ لوگ اللہ عزوجل کی ان نشانیوں کو اپنے جیسے لوگو ں تک پہنچا دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں یہ نشانیاں اچھی طر ح راسخ کردیتے ہیں ، علم نے انہیں واضح حقیقت پر کھڑا کردیا پھر وہ راستے جو (دنیا دارو ں ) کے لئے مشکل تھے ان کے لئے آسان ہو جاتے ہیں۔اورجن چیزوں سے جاہل لوگ خوف زدہ ہوتے ہیں یہ لوگ(یعنی علماء ربانی ) ان سے بالکل نہیں ڈرتے ۔
اہل علم دنیا میں ایسے رہتے ہیں کہ ان کے بدن تودنیامیں ہوتے ہیں مگر ان کی روحیں ملاء اعلیٰ میں ہوتی ہیں۔
اے کمیل بن زیاد(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! ایسے لوگ ہی زمین میں اللہ عزوجل کے خلیفہ ہیں اور اس کے دین کے مبلغ ہیں۔ ہائے !ہائے! میں ایسوں کو دیکھنے کا کتنا مشتا ق ہوں ۔
(اللہ عزوجل میری اور تمہاری مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)