حضرت اُویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے فضائل
حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، رحمتِ عالم، نورِ مجسَّم شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بےشک اللہ عزوجل اپنے بندوں میں سے ان کو زیادہ پسند فرماتا ہے جو مخلص ، پر ہیز گار اور گمنام ہوتے ہیں ، جن کے چہرے گرد آلود ، بھوک کی وجہ سے پیٹ کمر سے ملے ہوئے ، اور بال بکھرے ہوئے ہوں ، اگر وہ امراء کے پاس جانا چاہیں تو انہیں اجازت نہ ملے ، اگر کسی محفل میں موجود نہ ہوں تو کوئی ان کے متعلق سوال نہ کرے ، اوراگر موجود ہوں تو کوئی انہیں اہمیت نہ دے ، اگر وہ کسی سے ملاقات کریں تو لوگ ان کی ملاقات سے خوش نہ ہوں ، اگر وہ بیمار ہوجائیں تو کوئی ان کی عیادت نہ کرے ، اور جب مرجائیں تو لوگ ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوں ۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :”یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ایسے لو گوں سے ہماری ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ؟ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” اویس قرنی (علیہ رحمۃاللہ الغنی) انہی لوگوں میں سے ہيں۔” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:” یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کون ہے ؟”میٹھے میٹھے آقا، مدینے والے مصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :”اس کا قددرمیانہ ،سینہ چوڑا ، رنگ شدید گندمی ، داڑھی سینہ تک پھیلی ہوئی اس کی نگاہیں جھکی جھکی ، اپنے سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر رکھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے، زارو قطار رونے والا ہے ، اس کے پاس دو چادریں ہیں؛ ایک بچھانے کے لئے اور ایک اوڑھنے کے لئے ، دنیا والوں میں گمنام ہے، لیکن آسمانوں میں اس کا خوب چرچاہے ۔ اگر وہ کسی بات پر اللہ عزوجل کی قسم کھالے تو اللہ عزوجل ضرور اس کی قسم کو پورا کریگا، اس کے سیدھے کندھے کے نیچے سفید نشان ہے۔ کل بروزِ قیامت نیک لوگو ں سے کہا جائے گا : ” تم لوگ جنت میں داخل ہوجاؤ۔” لیکن اویس قرنی ( علیہ رحمۃ اللہ الغنی) سے کہا جائے گا :” تو ٹھہرجا اور لوگو ں کی سفارش کر ۔” چنانچہ وہ قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگو ں کی تعداد کے برابر گناہگاروں کی سفارش کریگا ۔”
(حلیۃ الاولیاء، اویس بن عامر القرنی، الحدیث:۱۵۶۷،ج۲، ص۹۶۔۹۷)
(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل اویس القرنی، الحدیث:۲۲۴(۲۵۴۲)، ص۱۱۲۳)
پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: ”جب بھی تم دونوں کی ملاقات اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی سے ہو ، تو اس سے اپنے لئے دعائے مغفرت کروانا۔”
حضر ت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور حضرت سیدناعلی المرتضیٰ رضی
اللہ تعالیٰ عنہما تقریباًدس سال تک حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃاللہ الغنی کو تلاش کرتے رہے، لیکن ان کے بارے میں معلو مات نہ ہو سکیں۔پھر جس سال امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا، اسی سال آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کے موقع پر جبل” ابو قیس”پر کھڑے ہوکرلوگو ں سے مخاطب ہوتے ہوئے باآواز بلند فرمایا :
”اے یمن سے آنے والے حاجیو! کیا تم میں کوئی اویس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نامی شخص موجود ہے؟ ”یہ سن کر ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا اور عرض کی:”ہم نہیں جانتے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس اویس کے متعلق پوچھ رہے ہیں ؟ ہاں! میرا ایک بھائی ہے جس کا نام اویس ہے ، لیکن وہ تو بہت غریب اور عام سا آدمی ہے ، وہ اس قابل کہاں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے متعلق سوال کریں،وہ تو ہمارا چرواہا ہے، اور ہمارے ہاں اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں۔”یہ سن کر حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ بہت غمگین ہوئے گویا کہ حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے بارے میں اس شخص کااس طرح بولناآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت ناگوار گزرا ہو۔”
تھوڑی دیربعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بوڑھے شخص سے پوچھا :” تیرا وہ بھائی کہا ں ہے ؟کیا وہ ہمارے حرم میں موجود ہے ؟ ”اس نے جواب دیا :”جی ہاں! وہ حرم شریف ہی میں موجود ہے،شاید! اب وہ میدان عرفات کی طر ف ہوگا۔”
یہ سن کر امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر فاروق اعظم اور حضرت سیدناعلی المرتضٰی رضی اللہ تعا لیٰ عنہما فوراً میدان عرفات کی طرف چل دیئے ۔جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ عاشقِ صادق ایک درخت کے نیچے نماز پڑھ رہا ہے، اور اونٹ اس کے اردگرد چررہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر حضرت سیدناعمر فاروق اعظم اور حضرت سیدناعلی المرتضٰی رضی اللہ تعا لیٰ عنہما اپنی سواریوں سے نیچے اترآئے اور اس عاشقِ صادق کے پاس آکر سلام کیا۔
حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے نماز کو مختصر کیا، اور نماز سے فارغ ہو کر سلام کا جواب دیا ۔ امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر فاروق اعظم اور حضرت سیدناعلی المرتضٰی رضی اللہ تعا لیٰ عنہما نے پوچھا:” اے شخص! تو کون ہے ؟” اس نے جواب دیا:” میں اپنی قوم کا مزدور او رچروا ہا ہوں۔ آپ دونوں حضرات رضی اللہ تعا لیٰ عنہما نے فرمایا :”ہم تجھ سے ان چیز وں کے متعلق سوال نہیں کررہے بلکہ یہ بتائیں،آپ کا نام کیا ہے؟” انہوں نے جواب دیا: ”میں عبداللہ (یعنی اللہ عزوجل کا بندہ) ہوں ۔” فرمایا:” یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ زمین وآسمان میں موجود تمام لوگ اللہ عزوجل ہی کے بندے ہیں ،تم اپنا وہ نام بتاؤ جو تمہاری ماں نے رکھا ہے؟”
یہ سن کر حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃاللہ الغنی نے عرض کی:” آپ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ ”توانہوں نے ارشاد فرمایا:”ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مدینے والے مصطفےٰصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہمیں اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے متعلق چند نشانیاں
بتائی ہیں، ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی باتوں اور رنگت کے متعلق بتائی ہوئی نشانیاں توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں دیکھ چکے ہیں ، لیکن ہمارے غیب دان آقا، مدینے والے مصطفےٰصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ایک نشانی اور بتائی تھی کہ اس کے سیدھے کندھے کے نیچے ایک سفید نشان ہوگا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ذرا اپناسیدھاکندھا ہمیں دکھادیں ،اگر وہ نشان موجود ہوا تو ہم پہچا ن جائیں گے کہ آپ ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے متعلق ہمارے غیب دان آقا، مدینے والے مصطفےٰصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے غیب کی خبر دی ہے ۔
یہ سن کر حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے اپنے کندھے سے چادر ہٹائی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مبارک کندھے کے نیچے سفید نشان موجود تھا۔ نشان دیکھتے ہی دونوں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کو بو سہ دیا اور فرمایا : ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ تم ہی وہ اویس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہو جس کے متعلق ہمیں نبی غیب داں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے خبر دی تھی۔ اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ ہمارے لئے مغفرت کی دعا کریں ۔”
یہ سن کر حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے عرض کی:” میں نہ توصر ف اپنے لئے استغفارکرتا ہوں اور نہ ہی کسی فردِ معین کے لئے،بلکہ میں تو ہر مؤمن مرد وعورت کے لئے استغفار کرتا ہوں۔ آپ لوگو ں پر اللہ عزوجل نے میرا حال تو منکشف فرماہی دیا ہے ، اب آپ اپنے متعلق بتائیں کہ” آپ کون ہیں ؟”
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم نے یہ سن کرجواب دیا: ”یہ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ ہیں۔ اور میں علی بن ابو طالب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)ہوں۔” یہ سنتے ہی حضر ت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی باادب کھڑے ہوگئے اورعرض کی:”اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !اللہ عزوجل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلامت رکھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔”
یہ سن کرامیر المؤمنین حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل آپ پر بھی رحم فرمائے ، آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ اسی مقام پر میرا انتظار فرمائیں۔ تاکہ میں آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ کے لئے مکہ مکرمہ سے کچھ چیزیں خرید لاؤں اور کچھ کپڑے وغیرہ لے آؤں آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ مجھے یہیں ملنا ۔ ”
آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ نے عرض کی:” حضور! آپ تکلف نہ فر مائیں ،شاید! آج کے بعد میں آپ کی زیارت نہ کر سکوں گا او ر ویسے بھی میں کپڑوں اور پیسوں کا کیا کروں گا؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھ ہی رہے ہیں کہ میرے پاس اون کی دو چادریں موجود ہیں، میں انہیں پھاڑتو نہیں دو ں گا ۔اور یہ دیکھیں میرے پاس چمڑے کے جوتے ہیں میں اتنی جلدی انہیں بیکار تھوڑاہی کرو ں گا، باقی رہا پیسوں کا مسئلہ تو میری قوم نے مجھے اونٹوں کی رکھوالی اورچرائی کے بدلے چار درھم دیتے ہیں جو میرے لئے کافی ہیں ۔
اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرے اور آپ کے سامنے ایک تنگ اور دشوار گزار گھاٹی ہے، جسے صرف کمزور اور ضعیف لوگ ہی عبور کرسکیں گے پس ہوسکے تو اپنے آپ کو ہلکا کرلیں ،اللہ عزوجل آپ پر رحم وکرم فرمائے ۔”
یہ سن کرحضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا درہ زمین پرمارا اور فرمایا:” اے عمر! کاش! تجھے تیری ماں نے جناہی نہ ہوتا ،کاش! وہ بانجھ ہوتی ۔”
پھر فرمایا :”کیا کوئی ایسا ہے جو مجھ سے خلافت کو اس کی ذمہ داریوں اور اس کے ثواب کے ساتھ قبول کرلے ۔”
حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے عرض کی:”اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !جو کوئی اللہ عزوجل سے ڈرتا ہے وہ اس (خلافت) سے دوربھاگتاہے (ہماری جدائی کا وقت آگیا ہے)اب آپ ایک طرف تشریف لے جائیں او رمیں دوسری طر ف چلاجاتا ہوں۔چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمرفاروق اور حضرت سیدناعلی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما مکۃ المکرمہ کی طرف تشریف لے گئے ۔اور آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ اونٹوں کو لے کر دو سری طرف چل دیئے، اور اونٹوں کو قوم کے حوالے کردیا ۔
پھرسب کام چھوڑ کر صرف اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور بالا ۤخر اپنے خالق حقیقی عزوجل سے جاملے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)))