حکایت نمبر298: حضرت معروف کرخی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی برکت
حضرت سیِّدُنا ابوعباس مُؤَدِّبْ(مُ. ءَ. دِ ّ. بْ) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے، ”میرے ایک ہاشمی پڑوسی کے معاشی حالات ٹھیک نہ تھے انہوں نے اپنا ایک واقعہ کچھ اس طر ح سنایا: ” ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی توگھر میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو اپنی زوجہ کو کھلاتا۔ اس دُکھیاری نے مجھ سے کہا : میرے سرتاج! آپ میری حالت وکیفیت سے خوب واقف ہیں، اس وقت مجھے غذا کی اشد ضرورت ہے تاکہ میری کمزوری دور ہو ، اب میں مزید صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ۔خدا را! کچھ کیجئے۔ اپنی زوجہ کی یہ حالت دیکھ کر میں بے تا ب ہوگیا اور عشاء کی نماز کے بعد ایک دُکان دار کے پاس گیا۔ میں غلہ وغیرہ اسی سے خریدتا تھا ، مجھ پر اس کا کچھ قرض بھی تھا۔ میں نے اسے اپنے گھر کی حالت بتائی اور کچھ سامانِ خورد ونوش (یعنی کھانے پینے کا سامان )طلب کیا او رکہا کہ میں جلد ہی اس کی قیمت ادا کردو ں گا۔
لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ میں ایک دوسرے دکاندار کے پاس گیا اور اپنی حالت سے آگا ہ کر کے کچھ چیزیں
طلب کیں۔ اس نے بھی انکار کردیا ۔ الغر ض! جس جس سے بھی امید تھی میں اس کے پاس گیا لیکن کسی نے میری مدد نہ کی۔ میں بہت رنجید ہ ہوا اور سوچنے لگا کہ اب کس کے پاس جاؤں ، کس سے اپنی حاجت طلب کرو ں۔ پھر میں دریائے دجلہ کی طرف چلا گیا ، میں نے ایک ملاح کو دیکھا جو اپنی کشتی میں بیٹھاہوا مسافروں کا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے آواز لگائی: ”میں فلاں فلاں علاقے کی سواریاں بٹھاتا ہوں اگر کوئی مسافر ہے تو آ جائے۔”
میں اس کی طر ف گیا تو وہ کشتی کنارے پر لے آیا، میں کشتی میں سوار ہوا اور ہماری کشتی دریائے دجلہ کا سینہ چیر تی ہوئی آگے بڑھنے لگی ۔ ملاح نے مجھ سے پوچھا :” تم کہاں جانا چاہتے ہو ؟” میں نے کہا: ”کچھ معلوم نہیں ۔” ملاح نے متعجب ہو کر کہا: ”تجھ جیسا عجیب شخص میں نے نہیں دیکھا تم اتنی رات گئے میرے ساتھ کشتی میں بیٹھے ہو اور تمہیں معلوم ہی نہیں کہ کہا ں جانا ہے؟” ملاح کی یہ با ت سن کر میں نے اسے اپنی حالت سے آگا ہ کیا تو وہ ہمدرد انہ لہجے میں بولا: میرے بھائی! غم نہ کرو، میں فلاں علاقے میں رہتا ہوں، جہاں تک ہو سکامیں تمہاری پریشانی حل کرنے کی کوشش کروں گا ۔ پھر اس نے ایک جگہ کشتی روکی اور مجھے دریائے دجلہ کے کنارے واقع ایک مسجد میں لے گیا اور کہا: ” میرے بھائی! اس مسجد میں حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی دن رات عبادت میں مشغول رہتے ہیں ، تم وضو کر کے مسجد میں چلے جاؤاوراللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس نیک بندے سے دعا کراؤ، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ضرور کوئی راہ نکل آئے گی۔”
میں وضو کر کے مسجد میں داخل ہو ا تو دیکھا کہ حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی محراب میں نماز ادا فرما رہے ہیں ۔ میں نے بھی دورکعت ادا کیں اور سلام کرکے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قریب بیٹھ گیا ۔ فراغت کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سلام کا جواب دیا اور کہا :”اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پررحم فرمائے! تم کون ہو ؟” میں نے اپنا واقعہ کہہ سنایا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بڑی توجہ سے میری بات سنی پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ باہر موسم خراب ہونے لگا، بارش زورپکڑتی جارہی تھی۔ میں بہت گھبرایا اور سوچنے لگا کہ میں اپنے گھر سے کتنا دور آ گیا ہوں، بارش بڑھتی ہی جارہی ہے، نہ جانے گھر والے کس حال میں ہوں گے۔ میں اس شدید بارش میں اپنے گھر کیسے پہنچو ں گا ۔ میں انہیں خیالات میں گم تھا کہ اچانک مسجد سے باہر کسی جانور کی آواز سنائی دی ، ایک سوار اپنی سواری سے اُترکر مسجد میں داخل ہوا اور حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نماز سے فراغت کے بعد اس سے پوچھا: ”مَنْ اَنْتَ رَحِمَکَ اللہُ ؟ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم کرے ،تم کون ہو؟”
اس نے کہا :” حضور! میں فلاں شخص کا قاصد ہوں، انہوں نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ” میں چادراوڑھ کر سو رہا تھا ، میں نے اپنے آپ کو اچھی حالت میں دیکھا او راپنے اوپر ایسی رحمت کی بر سات دیکھی ہے کہ اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ، میں اپ کی بارگاہ میں کچھ نذرانہ پیش کر رہا ہوں، اسے قبول فرماکر مجھ پر احسان فرمائیں، آپ جسے مستحق
پائیں اسے یہ رقم عطا فرما دیں ۔”
قاصد کا پیغام سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ” یہ ساری رقم اس ہاشمی شہزادے کی خدمت میں پیش کر دو ۔” قاصد نے کہا: ” حضور! یہ پانچ سو (500) دینار ہیں۔” فرمایا: ”ہاں! یہ سب اسے دے دو۔” قاصد نے ساری رقم مجھے دے دی۔ میں نے تمام رقم اپنی چادرمیں رکھی، حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا شکر یہ ادا کیا اور اسی وقت گھر کی طرف چل دیا، بارش میں بِھیگتا گرتا پڑتا اپنے علاقے میں پہنچا ،سیدھا دُکان دار کے پاس گیااور کہا:” یہ دیکھو !یہ پانچ سو(500)دینار ہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے رزق کے خزانوں میں سے مجھے عطا فرمائے ہیں۔ تمہارا جتنا مجھ پر قرض ہے وہ لے لو اور مجھے کھانے کا سامان دے دو۔ دکاندار نے کہا:”کل تک یہ رقم اپنے پاس ہی رکھو ،جو چیزیں تمہیں چاہیں وہ لے جا ؤ ۔ پھر اس نے شہد ، شکر ، تِلوں کا تیل، چاول چربی اور بہت سی کھانے کی اشیاء مجھے دیتے ہوئے کہا: ”آپ یہ تمام چیزیں اپنے گھر لے جائیں۔”میں نے کہا: ” اتنا سارا سامان میں کیسے اٹھاؤں گا۔” کہا:” میں آپ کی مدد کروں گا۔”کچھ سامان اس نے اُٹھایا کچھ میں نے پھر ہم دونوں گھر کی طرف چل دیئے۔ گھر پہنچے تو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہوا تھاکیونکہ میری زوجہ اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ دروازہ بند کرنے کی طاقت بھی نہ تھی۔ مجھے دیکھ کر شکوہ کرتے ہوئے بولی:” اس نازک حالت میں مجھے چھوڑ کر کہا ں چلے گئے تھے؟ بھوک اورکمزوری سے میری حالت خراب ہو گئی ہے۔
میں نے کہا:” اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم سے ہماری پریشانی دور ہوگئی، یہ دیکھو! گھی ، چربی ، شکر ، تیل اور بہت سی کھانے کی اشیاء کثیر مقدار میں ہمارے گھر میں موجود ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئی ،اس کی تکلیف جاتی رہی ۔ میں نے اسے دیناروں کے بارے میں نہ بتایا اس خوف سے کہ کہیں خوشی سے ہلاک نہ ہوجائے۔ پھر کھانا تیار ہوا سب نے کھا نا کھاکر خدائے بزرگ وبَر تر کا شکر ادا کیا۔صبح میں نے اپنی زوجہ کو وہ دینار دکھائے او رسارا قصہ سنایا۔ وہ بہت خوش ہوئی اور اس غیبی امداد پراللہ عَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کی۔ پھر ہم نے کاشت کے لئے کچھ زمین خرید لی تاکہ اس سے حاصل شدہ آمدنی کے ذریعے ہمارے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ اس طر ح کچھ ہی عرصہ بعد حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی برکت سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہماری تنگدستی ومفلسی دور فرمادی اور اب ہم بفضلہ تعالیٰ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ حضرت سیِّدُنا مَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو ہماری طرف سے اچھی جزا عطا فرمائے ۔”(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)