حکایت نمبر:352 حضرت اِبراہیم بن اَ دْ ہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کاجذ بۂ خیرخوا ہی
حضرتِ سیِّدُناشَقِیق بن اِبراہیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم سے منقول ہے کہ” ایک مرتبہ ہم حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی محفل میں حاضر تھے، اتنے میں آپ کے معتقدین میں سے ایک شخص آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سلام کئے بغیر ہمارے قریب سے گزر گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حاضر ین سے پوچھا :”کیا یہ فلاں شخص نہیں؟” عرض کی گئی:”جی ہاں۔” فرمایا:” جاؤ! اس سے پوچھو: ”آج تم نے ہمیں سلام کیوں نہیں کیا؟ کیا تم ناراض ہو ؟” جب اسے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ پیغام ملا توکہا :” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !ابھی ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور ہمارے پاس پھوٹی کَوڑی بھی نہیں (یعنی کچھ بھی نہیں)، اب میں کھانے کی تلاش میں نکلا ہوں، میں اتنا پریشان ہوں کہ مجھے کچھ ہوش ہی نہیں۔ ”جب حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو اس کی یہ حالت بتائی گئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تڑپ اٹھے اور”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن”پڑھ کر کہا :” ہائے افسوس! ہم اپنے رفیق کے حال سے غافل رہے اور بات اتنی بڑھ گئی۔ ہائے! اسے اتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔” پھر آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک شخص سے فرمایا:” جاؤ! فلاں باغ کے مالک کے پاس جاکر دو دینار قرض حاصل کر واور بازار جاکر ایک دینار کی اشیاءِ خورد ونوش (یعنی کھانے پینے کا سامان) خرید کر سارا سامان اور بقیہ ایک دنیار ہمارے اس پریشان حال رفیق کے گھر دے آؤ ۔”
وہ شخص فوراً تعمیل حکم کے لئے چل دیا اسی کا بیان ہے :” میں نے دو دینار قرض لئے، کھانے پینے کا سامان خرید ا پھر اس کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی ۔ اس کی زوجہ نے پوچھا :” کون ہے؟” میں نے اپنا تعارف کرایا اور اس کے شوہر کے متعلق پوچھا ۔ اس نے کہا :” وہ تو گھر پر موجود نہیں۔” میں نے کہا:” اچھا! آپ دروازہ کھول کر ایک طرف ہوجائیں ، میں کچھ سامان دینے آیا ہوں ۔” وہ دروازہ کھول کرایک طرف ہوگئی ،میں نے سامان صحن میں رکھااور دینار اس عورت کو دے دیا ۔ اس نے پوچھا : ”اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے !یہ سامان کس کی طرف سے ہے؟” میں نے کہا :” اپنے شوہر کو سلام کہنا اور کہنا کہ یہ سارا سامان ابراہیم بن اَ دْہَم کی طر ف سے ہے ۔”
یہ سن کر اس غریب خاتون کی زبان پر یہ دعائیہ کلمات جاری ہوئے:” اے ہمارے پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! آج اس مشکل وقت میں حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے ہماری مدد کی، اے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! اِس کی اُسے اچھی جزاء عطا فرما، اسے کبھی اپنی نظرِ رحمت سے دور نہ کرنا۔ ” وہ اسی طر ح دعا ئیں کرتی رہی اور میں واپس چلا آیا۔ جب حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو اس کی دعا کے متعلق بتایا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اتنا خوش ہوئے کہ اس سے قبل ہم نے کبھی آپ کواتنا خوش ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔جب رات کے آخری پہر اس بیچاری غریب خاتو ن کا شوہر گھر آیا تو اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا، باوجودِ کوشش کے اسے کوئی چیز نہ مل سکی۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ صحن میں بہت سارا سامان رکھا ہوا ہے۔ خاتون نے آگے بڑھ کر اپنے شوہر کو ایک دینار دیا تو اس نے پوچھا :”یہ سب چیزیں کس نے بھجوائی ہیں ؟” کہا:” حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الا کرم نے۔” یہ سنتے ہی اس غریب کے منہ سے بھی یہ دعائیہ کلمات نکلے : ”اے ہمارے پرودگار عَزَّوَجَلَّ ! حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو آج کے دن کی اچھی جزا ء عطا فرما! اسے کبھی اپنی نظرِ رحمت سے دور نہ کرنا، اسے کبھی اپنی نظر رحمت سے دور نہ کرنا ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !وہ مؤمن بڑا خوش بخت ہے جو محتاجوں کی مدد کرے، روتوں کو ہنسائے او ر پریشان حال لوگو ں کی پریشانی دور کرے۔ مخلوقِ خدا پرشفقت کرنا رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ پانے کا بہت اچھا راستہ ہے ۔جو مخلوق پر رحم کریگا خالقِ لَمْ یَزَل اس پر رحم وکرم کی ایسی بارش فرمائے گا کہ اس کی زندگی میں ہر طرف بہاریں ہی بہاریں آجائیں گی ۔ اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ جب کسی غریب انسان کی مدد کی جائے تو انسان کو ایسی اَنجانی سی خوشی ہوتی ہے جسے الفاظ کا جامہ پہنانا مشکل ہے۔اسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے یہ دولت نصیب ہوئی ہو۔ جسے یقین نہ آئے وہ کسی دُکھیارے کا دُکھ دور کر کے دیکھ لے۔ )