حکایت نمبر451: حضرتِ فاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ کاخوفِ آخرت
حضرت سیِّدُنا سَلَامَہ بن شَیْخ تَیْمِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی سے مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا اَحْنَف بن قَیْس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا :” امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنافاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں ہمارا لشکر ایک عظیم الشان کامیابی کے بعد مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًاکی طرف آرہاتھا۔جب مدینۂ پاک کے قریب پہنچا تو ہمارے بعض دوستوں نے مشورہ دیا: ”اگر ہم اپنے سفر کے کپڑے اتار کر عمدہ کپڑے پہنیں اور اچھی حالت میں شان وشوکت کے ساتھ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مسلمانوں کے سامنے جائیں تو اس سے لشکرِ اسلام کی شان وشوکت ظاہر ہوگی۔”چنانچہ، ہم نے اچھے لباس پہنے اور سفرکے کپڑوں کو تھیلوں میں رکھ لیا۔ جب ہم مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں داخل ہوئے توایک شخص نے ہمارے لشکر کو دیکھ کر کہا: ”ربِّ کعبہ کی قسم!یہ لوگ غلطی پر ہیں ۔” حضرتِ سیِّدُنا اَحْنَف بِنْ قَیْس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :” اس شخص کی بات نے مجھے نفع دیا اور میں سمجھ گیا کہ اس حالت میں امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہونامناسب نہیں، اس خیال کے آتے ہی میں نے ایک منزل پر اپنی سواری روکی، عمدہ لباس اُتار کر تھیلے میں ڈالا مگر بے توجہی سے چادر کا کچھ حصہ تھیلے سے باہر رہ گیا تھا جس کی مجھے خبر نہ ہوئی ،پھر میں سفر کا لباس پہن کر شرکائے قافلہ سے جاملا۔ جب لشکر امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُن سے نظریں پھیرلیں اور مجھ سے فرمایا:”تم لوگوں نے اپنی سواریوں کو کہاں کھڑا کیا ہے؟”میں نے بتایا:” فلاں جگہ پر۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرا ہاتھ پکڑ کر سواریوں کے پاس پہنچے دوسرے تمام لوگ بھی ہمراہ تھے، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سواریوں کے جانوروں کو دیکھاتو لشکرکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:”کیا تم ان جانوروں کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے نہيں ڈرتے؟کیا تمہیں خبر نہیں کہ ان کا تم پر کتنا حق ہے؟ تم انہیں سفر میں استعمال کرنے کے بعد کھول کیوں نہیں دیتے تاکہ یہ گھاس وغیرہ چَر لیں۔کیا تمہیں ان کااحساس نہیں جو ابھی تک باندھ رکھا ہے؟”ہم نے عرض کی: ”اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! ہم ایک بہت بڑی فتح کی خوشخبری لے کر آئے ہیں ،ہمیں اس بات کی جلدی تھی کہ مسلمانوں اور امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فوراًاطلاع دی جائے بس اسی جلدی میں ہم فوراً آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوگئے۔”
پھر امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جلال کچھ کم ہوا تو ان کی نظر میرے تھیلے پر پڑی جس میں سے چادر کا کچھ حصہ باہرنکلا ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:”یہ تھیلا کس کا ہے ؟”میں نے عرض کی:”میرا ہے۔”فرمایا:” یہ کپڑاکیسا ؟” عرض کی:”یہ میری چادر ہے۔” فرمایا :”کتنے کی ہے؟”میں نے اصل قیمت سے دوحصے کم بتائی توپھر بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”چادر تو بہت اچھی ہے اگر اس کی قیمت زیادہ نہ ہوتی۔”پھر ہم سب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ واپس آنے لگے تو راستے میں ایک شخص
ملا ، اس نے پکار کر کہا:”اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میرے ساتھ چلئے اور فلاں شخص سے میراحق دلوایئے۔ بے شک اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔”امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ لشکر کی کارکردگی لینے میں مصروف تھے اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی مداخلت سے بہت کوفت ہوئی ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے سر پر ہلکی سی ضرب لگائی اور فرمایا:”میں مسلمانوں کے کاموں میں مصروف ہوتا ہوں اور تم میں سے کوئی شخص آکر کہتا ہے کہ میری بات سنئے !میری مدد کیجئے !حالانکہ میں اس وقت تمہارے ہی کاموں میں مصروف ہوتاہوں،تم مجھے موقع بے موقع پکارتے ہو۔”
یہ سن کر وہ شخص ناراض ہو کر وہاں سے چلا گیا۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بے قرارہوکر فرمایا: ”اس شخص کو فوراً بلا کرمیرے پاس لاؤ۔” جب وہ آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی طرف کَوڑا پھینکتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”آؤ اور مجھ سے بدلہ لے لو۔”اس نے عرض کی :”یاامیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا حق معاف کیا،میں بدلہ نہیں لوں گا ۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :” تم شاید میرے ڈر کی وجہ سے بدلہ نہیں لے رہے ہو، آؤ! بلا خوف وخطر بدلہ لے لو۔”اس نے کہا :”حضور! میں نے رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے اپنا حق معاف کیا۔” یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا ۔امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُناعمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے گھر کی طرف تشریف لے گئے ۔ہم بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دورکعت نماز اداکی پھر بیٹھ گئے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا:”اے خطاب کے بیٹے !تُو پَست تھا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے بلندی عطا فرمائی، توبھَٹْکا ہوا تھااللہ ربُّ العِزَّت نے تجھے سیدھی راہ پر چلایا ،تو ذلیل تھا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے عزت کا تاج پہنایااورپھر تجھے مسلمانوں پر امیر مقرر فرمایا،اب اگر کوئی شخص تیرے پاس مدد لینے آتا ہے تو تُو اُسے مارتا ہے ۔اے خطاب کے بیٹے !کل بروزِقیامت جب خداعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں جائے گا توکیاجواب دے گا؟ ”نماز کے بعد کافی دیر تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے آپ کو ڈانٹتے رہے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیاکہ ا س وقت تمام اہلِ زمین میں سب سے بہتر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)