حکایت نمبر317: حضرتِ سیِّدُنا ابوجَعْفَرمجذوم علیہ رحمۃ اللہ القَیُّوْم
حضرتِ سیِّدُنا ابو الحسین دَرَّاج علیہ رحمۃ اللہ الوہاب سے منقول ہے کہ” ایک مرتبہ مَیں حاجیوں کے ایک قافلے کے ساتھ سوئے حرم روانہ ہوا۔جہاں قافلہ ٹھہرتامجھے بھی ٹھہرنا پڑتا اور دیگر معاملات میں بھی ان کے ساتھ کام وغیرہ کرنا پڑتا۔اس طر ح اس سال میرا تمام سفر ان قافلے والوں کے ساتھ رہا اور حج سے واپسی بھی انہیں کے ساتھ ہوئی۔ پھر ایک سال میں اکیلا ہی سفرِ حج پر روانہ ہو گیا اور منزلوں پر منزلیں طے کرتا ہوا ”قادسیہ” پہنچا ۔میں ایک مسجد میں گیا تو محراب میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے جسم کو کوڑھ کے مرض نے بہت زیادہ متاثر کر رکھا تھا ۔
اس نے مجھے دیکھ کر سلام کیا اور کہا:” اے ابوالحسین! کیا تمہارا حج کا ارادہ ہے ؟” مجھے اسے دیکھ کر بہت زیادہ کراہت محسوس ہو رہی تھی ،اس بات پر غصہ بھی آیا کہ اس نے مجھے مخاطب کیوں کیا؟ میں نے بڑی بے رُخی سے کہا:” ہاں! میرا حج کا ارادہ ہے۔” کہا:” پھر مجھے بھی اپنا رفیق بنالیں۔” میں نے دل میں کہا:”یہ کیسی مصیبت آگئی میں تو تندرست لوگو ں کی رفاقت پسند نہیں کرتا، وہاں سے بھاگا ہوں تو اس کوڑھی وبیمار شخص سے واسطہ پڑگیا ، میں نے کہا:” میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا ۔ ” اس نے کہا: ”مہربانی کرو، مجھے اپنے ساتھ رکھ لو۔” میں نے کہا: ” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں ہر گز تجھے اپنا رفیق نہ بناؤں گا۔” اس نے کہا:”اے ابو الحسین! اللہ عَزَّوَجَلَّ ناتوانوں اور کمزوروں کو ایسا نواز تا ہے کہ طاقتور بھی تعجب کرنے لگتے ہیں۔”
میں نے کہا:” تمہاری بات ٹھیک ہے ،لیکن میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔” عصر کی نماز پڑھ کر میں سفر پر روانہ ہوا ، صبح ایک بستی میں پہنچا تو اسی شخص سے ملاقات ہوئی اس نے مجھے سلام کیا اور وہی الفاظ کہے ، ” اللہ عَزَّوَجَلَّ ضعیف وناتواں بندوں کو ایسا نواز تا ہے کہ طاقتور بھی تعجب کرنے لگتے ہیں ۔” اس کی یہ بات سن کر میں بڑا حیران ہو ا مجھے اس کو ڑھی شخص کے بارے میں عجیب وغریب خیال آنے لگے ، میں وہاں سے اگلی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ جب مقامِ ”قَرْعَاء” پہنچ کر نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہواتو اسے وہاں بیٹھا دیکھا ،اس نے کہا:” اے ابو الحسین ! اللہ عَزَّوَجَلَّ ضعیف ناتو اں بندوں کو ایسا نواز تاہے کہ
طاقتو ر وں کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ ” میں فوراً اس کے پاس گیا اور قدموں میں گر کر عرض کی: ” حضور !میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی کا طلبگارہوں اور آپ سے بھی معافی کی درخواست کرتا ہوں مجھے معاف فرمادیں ۔”
اس نے کہا : ”تجھے کیاہوا؟ ” میں نے کہا:” مجھ سے غلطی ہوگئی کہ آپ کو اپنے ساتھ نہ رکھا ،اب کرم فرمائیں مجھے معاف فرمادیں آپ بخوشی میرے ساتھ سفر کریں ۔” اس نے کہا:” کیا تو نے مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنے کی قسم نہ کھائی تھی؟” میں تمہاری قسم نہیں تڑوانا چاہتا۔”میں نے کہا:”اچھا پھر اتناکرم فرمائیں کہ ہر منزل پراپنا دیدار کرا دیاکریں۔”اس نے کہا:”ہاں! یہ ہوسکتا ہے ، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری یہ خواہش پوری ہوجائے گی۔” پھر وہ مجھ سے جدا ہوگیا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس نیک بندے کی برکت سے میرا بھوک وپیاس اور تھکاوٹ کا احساس جاتا رہا۔ جب بھی میں کسی منزل پر ٹھہرتا تو اس نیک بندے کی زیارت کا شوق بڑھ جاتا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ !مجھے ہر منزل پر اس بزرگ کی زیارت ہوتی رہی یہاں تک کہ میں مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں داخل ہوگیا ۔ اس کے بعد مجھے وہ نظر نہ آیا ۔
جب مکۂ معظمہ زَادَہَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا میں حضرتِ سیِّدُنا ابو بَکْر کَتَّانی اور حضر تِ سیِّدُنا ابو الحسن مُزَیِّن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور انہیں اپنے سفر کا سارا واقعہ سنایا تو انہوں نے فرمایا:” ارے نادان ! جانتے ہو، وہ کون تھے ؟ وہ زمانے کے مشہور ولی حضرت سیِّدُنا ابوجَعْفَر مجذوم علیہ رحمۃ اللہ القَیُّوْم تھے۔”ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا گو ہیں کہ اپنے اس ولی کا ہمیں دیدار کرادے۔ سنو! اب جب بھی تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ہمیں ضرور بتا نا ، شاید ہمیں بھی ان کے دیدار کی دولت نصیب ہو جائے ۔ میں نے کہا:” ٹھیک ہے۔” پھر ہم ” مِنٰی وعرفات ” کی طرف گئے لیکن میں ان کا دیدار نہ کر سکا ، دسویں ذُوالْحِجَّۃُ الْحَرَام کو جب میں رمئ جمارکرنے (یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے) لگا تو کچھ دیر بعد کسی شخص نے مجھے اپنی طرف کھینچا اور کہا:” اے ابوالحسن! السلام علیکم۔” جیسے ہی میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو میرے سامنے وہی بزرگ حضرت سیِّدُنا ابو جَعْفَر مجذوم علیہ رحمۃ اللہ القَیُّوْم موجود تھے۔ انہیں دیکھتے ہی مجھ پر رِقَّت طاری ہوگئی میں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب میرے حواس بحال ہوئے تو وہ وہاں سے جا چکے تھے ۔ میں مسجد ”خیف” آیا اور اپنے رفقاء کو سارا واقعہ بتایا ۔”یومِ وَدَاع کو مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد میں نے جیسے ہی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اچانک کسی نے مجھے اپنی طرف کھینچا ، دیکھا تو وہی بزرگ حضرت سیِّدُنا ابوجَعْفَر مجذوم علیہ رحمۃ اللہ القَیُّوْم موجود تھے اور فرمارہے تھے،” اے ابو الحسن! بالکل نہ گھبرانا اور نہ ہی شور مچانا۔” میں نے کہا:” ٹھیک ہے، میں شور نہیں کرو ں گا ، آپ میرے لئے دعا فرمادیں ۔” انہوں نے فرمایا:” جومانگنا چاہتے ہو، مانگو۔” چنانچہ، میں نے بارگاہِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں تین مرتبہ دعا کی او رانہوں نے میری دعا پر آمین کہا ۔ پھر وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے اور دوبارہ نظر نہ آئے ۔
جب مجھ سے کسی نے میری تین دعاؤں کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا:”میری پہلی دعا یہ تھی کہ اے میرے پاک
پروردگار عَزَّوَجَلَّ!میرے نزدیک فقر کو ایسا محبوب بنادے کہ دنیا میں مجھے اس سے زیادہ محبوب کوئی شئے نہ ہو۔ اور دوسری یہ تھی کہ مجھے ایسا نہ بنانا کہ میری کوئی رات اس حالت میں گزرے کہ صبح کے لئے کوئی چیز ذخیرہ کر رکھی ہو۔” اور پھر ایسا ہی ہوا کئی سال گزر گئے لیکن میں نے کوئی چیز اپنے پاس ذخیر ہ کر کے نہ رکھی ۔ اور تیسری دعا یہ تھی: ”اے میرے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! جب تو اپنے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کو اپنے دیدار کی دولتِ عظمیٰ سے مشرف فرمائے تو مجھے بھی ان اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں شامل فرمالینا ۔”
مجھے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے اُمید ہے کہ میری ان دعاؤں کو ضرور پورا فرمائے گا کیونکہ ان پر ایک ولئ کا مل نے آمین کہا تھا۔ (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ بے نیاز ہے وہ اپنے اولیاء کرام کو جس حال میں چاہے رکھے ، چاہے تو ایسا مشہور فرمائے کہ چہار دانگ ِ عالَم میں ان کی ولایت کے ڈَنکے بجنے لگیں اور چاہے تو ایسا پوشیدہ رکھے کہ بالکل قریب رہنے والے بھی نہ پہچان سکیں،بلکہ عام لوگ ان کو حقارت بھری نظر وں سے دیکھیں اور اپنے ساتھ رکھنا بھی پسند نہ کریں ۔ وہ خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ اپنے نیک بندوں کو جس حال میں بھی رکھے وہ اس سے خوش رہتے ہیں ،کبھی بھی حرفِ شکایت لب پر نہیں لاتے ۔ہمیں چاہے کہ ہم کسی بھی مسلمان کو حقیر نہ سمجھیں، نہیں معلوم، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کس کا کیا مقام ہو ، بعض پر اگندہ حال ، بکھرے بالوں والے بظاہر کچھ بھی نظر نہ آنے والے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں کہ اللہ ربُّ العزَّت اُن کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو رد نہیں فرماتا۔
؎ بکھرے بال، آزُرْدَہ صورت، ہوتے ہیں کچھ اہلِ محبت
بدرؔ مگر یہ شان ہے اُن کی، بات نہ ٹالے ربُّ العزَّت
ان کے خالی ہاتھوں میں دین ودنیا کی دولت ہوتی ہے اور جو اُن سے عقیدت رکھتا ہے اسے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ بلاشبہ وہ گڈری کے لعل ہوتے ہیں۔)
؎ نہ پوچھ! اِن خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں