حاتِم طائی کی سخاوت

حکایت نمبر374: حاتِم طائی کی سخاوت

حضرتِ سیِّدُنامِلْحَان طائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے،” حاتم طائی کی زوجہ”نَوَار” سے کہا گیا:”ہمیں حاتم طائی کے متعلق کچھ بتاؤ۔” اس نے کہا :” حاتم طائی کا ہر کام عجیب تھا۔ ایک مرتبہ قحط سالی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، زمین نے بالکل سبزہ نہ اُگایا۔ آسمان سے پوراسال با رش نہ ہوئی۔ بھوک اور کمزوری نے دودھ پلانے والیوں کو دودھ پلانے سے روک دیا ۔ اونٹ سارا سارا دن پانی کی تلاش میں پھر تے لیکن انہیں ایک قطر ہ پانی نہ ملتا ۔ ہر ذی روح بھوک وپیاس سے بے تاب تھا ۔ ایک رات سردی نے اپنا پورا زور دکھا رکھا تھااور ہمارے گھر میں کھانے کے لئے ایک لقمہ بھی نہ تھا ۔ ہمارے بچے، عبداللہ ، عَدِی ، اورسَفَّانَہ بھوک سے بِلْبِلا رہے تھے۔ وَاللہ(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم)! ہمارے پاس انہیں دینے کے لئے کچھ بھی نہ تھا ۔ بچو ں کی آہ وبکا سن کر ایک کو حاتم طائی اور دوسرے کو میں نے گود میں اٹھالیا، ہم انہیں کافی دیر تک بہلاتے رہے ۔ لیکن بھوک نے ان کا برا حال کر رکھا تھا۔

بالآخر رات کافی دیر بعد تھک ہا ر کر دونوں بچے سوگئے ۔ ہم نے انہیں ایک چٹائی پر لٹادیا پھر تیسرے کو بہلانے لگے بالآخر وہ بھی سوگیا۔ ”
حاتم طائی نے کہا:” آج نہ جانے مجھے نیند کیوں نہیں آرہی ؟”پھر وہ ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ رات کی سیاہی کو آسمان پر چمکنے والے ستارے دور کر رہے تھے، جنگلی جانوروں کے چیخنے کی آواز یں فضا میں بلند ہورہی تھیں ۔ ہر چلنے والا مسافر ٹھہر چکا تھا ، رات کا پُر ہول منظر بڑھتا ہی جارہا تھا ۔ اچانک ہمارے گھر کے باہر کسی کی آہٹ سنائی دی، حاتم طائی نے بلند آواز سے کہا:” کون ہے؟” لیکن کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے کہا :” ہمارے ساتھ یاتوکسی نے مذاق کیا ہے یاکوئی دھوکہ ہونے والا ہے۔” میں باہر گئی اور حالات کا جائزہ لے کر واپس آئی تو حاتم طائی نے پوچھا:” کون ہے ؟ ”میں نے کہا :” آپ کی فلاں پڑوسن ہے، اس کَڑے وقت میں آپ کے علاوہ کوئی اور اسے نظر نہ آیا جس کے پاس جاکر پناہ لیتی ۔ اپنے بھوکے بچوں کو آپ کے پاس لائی ہے۔ وہ بھوک سے اس طرح بلبلا رہے ہیں جیسے کسی جانور کے بچے چیختے ہیں۔” یہ سن کر حاتم طائی نے کہا :” اسے جلدی سے میرے پاس لاؤ۔” میں نے کہا:” ہمارے اپنے بچے بھوک سے مرے جارہے ہیں، انہیں دینے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں تو پھر بیچاری پڑوسن اور اس کے بچو ں کی ہم کیا مدد کریں گے؟” حاتم طائی نے کہا:” خاموش رہو، اللہ تعالیٰ ضرور تمہارا اور ان سب کا پیٹ بھرے گا ۔ جاؤ! جلدی سے اس دُکھیاری ماں کو اندر بلا لاؤ ۔” میں اسے بلا لائی۔ اس غریب نے دو بچے اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تھے اور چار بچے اس سے لپٹے اس کے پیچھے اس طر ح آرہے تھے جیسے مرغی کے بچے مرغی کے گرد جمع ہو کر چلتے ہیں۔
حاتم طائی نے انہیں کمرے میں بٹھایا اور گھوڑے کی طرف بڑھا ، بر چھی سے گھوڑا ذبح کرکے آگ جلائی گئی۔ جب شعلے بلند ہونے لگے توچُھری لے کر گھوڑے کی کھال اتا ری پھر اس عورت کی طرف چُھری بڑھاتے ہوئے کہا : ”کھا ؤ! اور اپنے بچوں کو بھی کھلاؤ پھر مجھ سے کہا :” تم بھی کھا ؤ اور بچو ں کو بھی جگادو تاکہ وہ بھی اپنی بھوک مٹا سکیں۔”ہماری پڑوسن تھوڑا تھوڑا گو شت کھارہی تھی اس کی جھجک کو محسوس کرتے ہوئے حاتم طائی نے کہا :” کتنی بری بات ہے کہ تم ہماری مہمان ہوکر تھوڑا تھوڑا کھا رہی ہو۔” یہ کہہ کر وہ ہمارے قریب ہی ٹہلنے لگا ۔ ہم سب کھانے میں مصروف تھے اورحاتم طائی ہماری جانب دیکھ رہا تھا۔ ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا لیکن بخدا! حاتم طائی نے ایک بوٹی بھی نہ کھائی حالانکہ وہ ہم سب سے زیادہ بھوکا تھا۔ صبح زمین پرہڈیوں اور کُھرُوں کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔

Exit mobile version