حکایت نمبر287: حق پر قائم رہنے کا انعام
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن حسین بن دِیْزِیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ جن دنوں خلقِ قرآن کا مسئلہ زوروں پر تھا۔ علماء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو سخت اذیتوں کا سامنا تھا، ظالم خلیفہ ہر اس شخص کو سخت سزا دے رہا تھا جو خلقِ قرآن کے عقیدے میں اس کا مخالف تھا، حضرتِ سیِّدُنا عفَّان علیہ رحمۃ اللہ المنّان کو بھی شاہی دربار میں بلایاگیا۔ وہ خچر پر سوار ہوئے، میں نے خچر کی لگام تھامی اور ہم دونوں شاہی دربار پہنچے ۔ بھرے دربارمیں جب ان سے پوچھاگیا: ”کیاتم اس بات کے قائل ہوکہ کَلَامُ اللہ مخلوق ہے؟” انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا اور خاموش رہے۔ انہیں باربار مجبور کیا گیا کہ ” کَلَامُ اللہ کو مخلوق کہو۔” لیکن انہوں نے یہ غلط بات تسلیم نہ کی اوراس عقیدے پر ڈٹے رہے کہ قرآن پاک، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کلام اس کی صفت ہے نہ کہ مخلوق ۔ ان سے کہا گیا : اگر تم نے قرآن پاک کو مخلوق نہ مانا تو ایک ہزار درہم جو ہر ماہ تمہیں بطورِ وظیفہ دیئے جاتے ہیں وہ بند کر دیئے جائیں گے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی : وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿22﴾
ترجمۂ کنزالایمان :اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اورجوتمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔(پ26،الذٰریٰت:22)
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گھر تشریف لائے تو گھر کے تمام افرادجوکم وبیش چالیس تھے سب نے آپ سے دوری اختیار کر لی۔ آپ اکیلے رہ گئے ۔پھر دروازہ کھٹکھٹا کر ایک اجنبی شخص اندر آیا جو گھی فروش لگ رہا تھا۔ اس کے پاس ہزار درہم کی ایک تھیلی تھی اس نے وہ تھیلی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے رکھی اور کہا : ”اے ابو عثمان علیہ رحمۃ اللہ المنّان! جس طر ح آپ نے دین کو قائم رکھا اسی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو بھی قائم رکھے، یہ ہزار درہم آپ کی بارگاہ میں تحفۃ ًپیش کر رہا ہوں قبول فرمالیں اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی طرح ہر ماہ آپ کی خدمت میں ہزار درہم پیش کیا کروں گا۔ یہ کہہ کر وہ شخص وہاں سے چلا گیا ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)