حکایت نمبر224: حق فیصلہ پرقائم رہنے کاصلہ
حضرتِ سیِّدُنایحیی بن لَیْث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے :”ایک خُرَاسَانی شخص نے اُمِّ جَعْفَر( خلیفہ ہارون الرشید کے وزیر جَعْفَر بن یحیی کی ماں )کے مجوسی وکیل” مرزبان” کواپنے اونٹ ،تیس ہزار درہم کے بدلے بیچے۔ مجوسی وکیل نے رقم دینے میں شَشْ وپنج سے کام لیا۔ خُرَاسَانی جب بھی رقم کا مطالبہ کرتا مجوسی اسے ٹال دیتا۔ بار بار مطالبہ کرنے پر مجوسی نے صرف ایک ہزار درہم دئیے۔ بالآخر پریشان ہوکر خُرَاسانی اپنے ایک دوست کے پاس گیااورساراواقعہ کہہ سنایا۔ اس کے دوست نے کہا: ”تم دوبارہ
مرزبان مجوسی کے پاس جاؤ اورکہو کہ کل قاضی کی عدالت میں حاضر ہوجانا،میں نے اپنے مال کی وصولی کے لئے فلاں شخص کو وکیل بنادیاہے ۔”پھر جب مرزبان مجوسی قاضی کی عدالت میں آئے تو تم دعوی کرنا کہ اس پر میرا اتنا اتنا مال، قرض ہے۔ جب مرزبان قاضی کے سامنے اقرار کرلے گا اوررقم نہیں دے گاتو وہ اسے گرفتار کرکے تجھے تیرا مال دلو ادے گا۔”
خُرَاسَانی فوراًمرزبان کے پاس گیااورکہا:”کل قاضی کی عدالت میں حاضر ہوجانا میں اپنے مال کی وصول کے لئے فلاں شخص کو اپنا وکیل بنا رہا ہوں۔” صبح جب مرزبان اورخُرَاسَانی قاضی حفص بن غیاث کی عدالت میں پہنچے تو خُرَاسَانی نے کہا: ”قاضی صاحب!اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو سلامت رکھے،اس شخص پر میرے انتیس( 29)ہزار درہم ہیں۔”قاضی صاحب نے مجوسی سے کہا :” اے مجوسی تم کیا کہتے ہو؟کیا اس کا دعویٰ درست ہے ؟”مجوسی نے کہا:” قاضی صاحب!اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے اس شخص کا دعویٰ درست ہے۔” قاضی صاحب نے کہا:” اے خُرَاسَانی !اس نے تمہارے مال کا اقرار کرلیاہے، اب تم کیا چاہتے ہو؟”کہا:” حضور! اس سے میرا مال دلوا دیجئے۔” قاضی صاحب نے کہا:”اے مجوسی اس کا مال اداکرو۔”مجوسی نے کہا: ”مال کی ادائیگی تو وزیر (جَعْفَربن یحیی)کی والدہ کے ذمہ ہے ۔”قاضی صاحب نے اسے ڈانتے ہوئے کہا:” تُوتو احمق ہے ، ابھی تو نے اقرار کیا ہے اوراب کہہ رہا ہے کہ وزیر کی والدہ کے ذمہ ہے ۔ اے خُرَاسَانی تم بتاؤ اب اس مجوسی کا کیاکیا جائے ؟” کہا: ”حضور! اگریہ میرا مال ادا کرتاہے تو ٹھیک، ورنہ اسے قید کرلیجئے ۔” قاضی صاحب نے کہا :” تم کیا کہتے ہو؟”اس نے پھر وہی جواب دیا کہ مال تو وزیر کی والدہ کے ذمے ہے ۔”قاضی صاحب نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے قیدکرلو۔
جب اُمِ جَعْفَر کو مجوسی کی خبر ہوئی توبڑی غضبناک ہوئی اورجیلر کی طرف یہ پیغام بھیجا:” قاضی نے مرزبان کو گرفتارکرلیاہے، اس کی طرف توجہ کرو اوراسے رہا کردو۔” جیسے ہی جیلر کو اُمِ جَعْفَر کا حکم ملا اس نے فوراًمرزبان مجوسی کو رہا کردیا۔ جب قاضی حفص بن غیاث کو معلوم ہوا کہ مجوسی کو رہا کردیا گیا ہے تو اس نے کہا:” میں قید کرتاہوں اورجیلر آزاد کردیتاہے ۔ اب میں اس وقت تک عدالت نہ جاؤں گاجب تک مرزبان مجوسی دوبارہ قید میں نہ آجا ئے ۔” جیلر کو قاضی صاحب کی یہ بات معلوم ہوئی تو فوراً امِ جَعْفَر کے پاس گیا اورکہا:” میں توبڑی مصیبت میں پھنس گیا ہوں ،اگر امیر المؤمنین نے مجھ سے پوچھ لیا کہ تم نے کس کے حکم سے مرزبان مجوسی کو آزادکیاہے؟تو میں کیا جواب دوں گا؟ براہ کرم مرزبان کوواپس جیل بھیج دیں ۔” چنانچہ مرزبان دوبارہ قیدکرلیا گیا۔
اُمِ جَعْفَرخلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کے پاس گئی اورکہا: ”آپ کا قاضی نادان ہے، اس نے میرے وکیل کو گرفتار کرکے بہت ذلیل ورُسوا کیاہے ۔ آپ قاضی کو حکم دیں کہ وہ یہ مقدمہ حضرت سیِّدُنا امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عدالت میں بھیج دے۔” ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے اُمِ جَعْفَر کے اصرار پر حکم جاری فرمادیا کہ تم یہ مقدمہ، امام ابویوسف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے کردو۔ اورمجوسی کا یہ مقدمہ سرکاری رجسٹروں میں درج نہ کیا جائے۔جب قاضی حفص بن غیاث کو معلوم ہوا کہ خلیفہ نے یہ
حکم جاری کیا ہے اورقاصد میرے پاس پہنچنے ہی والا ہے تو فوراًوہ عدالت گئے اور اس مجوسی کے خلاف تمام ریکارڈ سرکاری کاغذات میں لکھنے لگے۔ ابھی یہ کام جاری تھا کہ خلیفہ کاقاصد آگیا اس نے آتے ہی کہا:”امیر المؤمنین کی طرف سے آپ کو پیغام آیا ہے۔ قاضی نے کہا:” تھوڑی دیر رک جاؤ میں ایک بہت اہم کام میں مصروف ہوں اس سے فارغ ہوکرخط پڑھوں گا۔ ”قاصد نے کہا:” آپ پہلے یہ خط پڑھ لیں کہ اس میں امیر المؤمنین نے آپ کو کیا حکم دیا ہے۔” لیکن قاضی حفص بن غیاث اپنے کام میں مصروف رہے۔
جب تمام ریکارڈسرکاری کاغذات میں درج کردئیے توقاصد سے خط لے کر پڑھا اور کہا:” امیر المؤمنین کو میرا سلام کہنا اور عرض کرنا کہ آپ کا خط پڑھنے سے پہلے ہی میں تمام ریکارڈ درج کرچکا تھا۔” قاصد نے کہا:”خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کیا کیاہے، آپ نے امیر المؤمنین کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے ۔” کہا:” جاؤ اورجو تمہیں پسند ہو وہی امیر المؤمنین سے کہہ دینا۔”قاصد خلیفہ کے پاس آیا اورسارا واقعہ کہہ سنایا ۔قاصد کی بات سن کر امیر المؤمنین نے ہنستے ہوئے کہا:” کوئی ایسا شخص لے کر آؤ جو حفص بن غیاث کے پاس تیس ہزاردرہم پہنچا دے۔”پیغام ملتے ہی یحیی بن خالد حاضرہوا اوررقم لے کر قاضی حفص بن غیاث کے پاس پہنچا آپ عدالت سے واپس آرہے تھے۔یحیی نے کہا :” قاضی صاحب!آج تو تم نے امیر المؤمنین کو خوش کر دیا ہے اورانہوں نے تمہارے لئے تیس ہزار درہم بھجوائے ہیں، آخر تم نے ایسا کون سا عمل کیاہے؟”قاضی صاحب نے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ امیرا لمؤمنین کی خوشیاں دوبالاکرے اوران کی حفاظت فرمائے ۔میں نے تو روزانہ کے معمولات سے زیادہ کوئی کام نہیں کیا۔”
یحیی بن خالد نے کہا:” ذرا سوچو! تم نے ضرور کوئی خاص کام کیاہے ۔” قاضی صاحب نے غوروفکر کرکے کہا : ”اورتو کچھ خاص کام نہیں کیا، ہاں !اتنا ضرورہے کہ آج میں نے مجوسی کے خلاف ریکارڈ سرکاری کاغذات میں درج کیاہے کہ اس نے ناحق ایک خُرَاسَانی کی رقم دبائی ہوئی تھی۔” یحیی بن خالد نے کہا :”بس تیرے اسی کام نے امیر المؤمنین کو خوش کیا ہے ۔”یہ سن کر قاضی صاحب نے اللہ ربُّ العزَّت کا شکر ادا کیا۔
جب اُمِّ جَعْفَر کو معلوم ہواکہ خلیفہ نے قاضی صاحب کو انعام واکرام سے نوازاہے تو وہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید کے پاس گئی اورکہا:” امیرالمؤمنین! آپ قاضی کومعزول کردیں۔ہارون الرشیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید نے انکار کیا۔ وہ اصرار کرتی رہی۔ بالآخر خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جگہ حضرت سیِّدُنا امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو قاضی مقرر کردیا اور آپ کو کوفہ کا قاضی بنادیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ سال تک کوفہ کے قاضی رہے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)