حلال روزی کی اہمیت و عظمت

کتاب البیوع

حلال روزی کی اہمیت و عظمت

(۱)’’عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَلَبُ کَسَبِ الْحَلالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ‘‘۔ (1)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ ( شریعت کے دیگر) فرائض کے بعد حلال روزی حاصل کرنا فرض ہے ۔ (بیہقی، مشکوۃ)
(۲)’’ عَنْ أَبِی بَکْرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ جَسَدٌ غُذِّیَ بِالْحَرَامِ‘‘۔ (2)
حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جس بدن کو حرام غذا دی گئی وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (بیہقی، مشکوۃ)
(۳)’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یُبَالِی الْمَرْئُ مَا أَخَذَ مِنْہُ أَ مِنَ الْحَلالِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ‘‘۔ (3)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب کہ کوئی اس بات کی پروا نہ کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا وہ حلال ہے یا حرام۔ (بخاری شریف)

انتباہ :

(۱)…چکی والے گیہوں وغیرہ پیسنے کے بعد فی کلو تیس چالیس گرام آٹا ’’جرتی‘‘ کہہ کر نکال لیتے ہیں یہ ناجائز و حرام ہے اس لیے کہ اتنی مقدار میں آٹا نہیں جلتا۔ ثبوت یہ ہے کہ چکی والے کے پاس دس پانچ کلو آٹا روزانہ فاضل بچ جاتا ہے ۔
اور اگر چکی والے کچھ پیسا اور اپنے پیسے ہوئے میں سے کچھ آٹا اجرت ٹھہرادیں تویہ بھی ناجائز اس لیے کہ قفیز طحان ہے ۔ بہارِ شریعت جلدچہار دہم ص:۱۴۱ میں ہے ۔ اجارہ پر کام کرایا اور یہ قرار پایا کہ اسی میں سے اتنا تم اجرت لے لینا یہ اجارہ فاسد ہے مثلاً کپڑا بننے کے لیے سوت دیا اور کہہ دیا کہ آدھا کپڑا اجرت میں لے لینا یا غلہ اٹھا کر لائو اس میں سے دوسیر مزدوری لے لینا ، یا چکی چلانے کے لیے بیل لیے اور جو آٹا پیسا جائے گا اس میں سے اتنا اجرت میں دیا جائے گا ( یا کھیت کٹوایا اور اسی میں سے اجرت دینا طے کیا) یہ سب صورتیں ناجائز(1)ہیں۔ ملخصاً۔ (2)
ہاں پیسہ اور کچھ گیہوں یا باجرہ وغیرہ اجرت مقرر کریں تو جائز ہے ۔ بہار ِ شریعت میں ہے کہ جائز ہونے کی صورت یہ ہے کہ جو کچھ اجرت میں دینا ہے اس کو پہلے ہی سے علیحدہ کردے کہ یہ تمہاری اجرت ہے ۔ مثلاً سوت کو دو حصہ کرکے ایک حصہ کی نسبت کہا کہ اس کا کپڑا بُن دو اور دوسرا دیا کہ یہ تمہاری مزدوری ہے یا غلّہ اٹھانے والے کو اسی غلہ میں سے نکال کر دے دیا کہ یہ تیری مزدوری ہے اور یہ غلہ فلاں جگہ پہنچادے ( جیسا کہ) بھاڑ والے پہلے ہی اپنی بھنائی نکال کر باقی کو بھونتے ہیں۔ (3)
(۲)…بعض لوگ اس طرح کھیت کٹواتے ہیں کہ ہم فی بیگھہ یا ہر روز چار سیر دھان مزدوری دیں گے

مگر یہ نہیں ٹھہراتے کہ ہم تمہارے کام کیے ہوئے میں سے دیں گے ۔ اب خواہ اسی کام کیے ہوئے میں سے دیں کوئی حرج(1)نہیں۔
(۳)…کپڑا سلنے کے لیے دیا تو درزی نے اس میں سے کاٹ لیا۔ روئی کاتنے کے لیے دی تو کاتنے والے نے روئی نکال لی، کپڑا بننے کے لیے دیا تو بننے والے نے سوت نکال لیا اور بھرنے کے لیے دیاتو بھرنے والوں نے سوت نکال لیا یہ سب ناجائز و حرام ہے ۔
افسوس کہ یہ باتیں علانیہ کھلے طور پر مسلمانوں میں اس طرح رائج ہوگئی ہیں کہ اب لوگوں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم حرام روزی سے اپنا پیٹ بھر کر اپنی عاقبت برباد کررہے ہیں بلکہ عوام تو عوام بعض خواص بھی اس طرح حر ام روزی حاصل کرنے میں بے باک نظر آتے ہیں۔ اَلْعِیَاذُ بِاللَّہِ تَعَالَی۔
کرو مہر بانی تم اہل زمین پر
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
٭…٭…٭…٭

Exit mobile version