گمشدہ تھیلی کیسے ملی؟
حضرت سیدنا محمد بن سہل بن عسکر بخاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں،میں نے مکہ مکرمہ (زاد ھا اللہ شرفاًوتعظیماً) میں ایک جگہ دیکھا کہ ایک مغربی شخص خچر پر سوا ر ہے اوراس کے آگے آگے ایک منادی یہ ندا کر رہاہے :”ہماری ایک تھیلی گم ہوگئی ہے اگر کوئی شخص وہ تھیلی ہم تک پہنچا دے تو اسے بطورِ انعام ایک ہزار دینار دیئے جائیں گے۔”منادی مسلسل یہ اعلان کرتا جارہا تھا۔
اچانک بوسیدہ لباس پہنے ہوئے ایک معذور شخص آیا،جو بظاہر بہت غریب ومفلس معلوم ہورہا تھا۔اس نے مغربی شخص سے کہا:” تمہاری گمشدہ تھیلی کی کیا علامت ہے ؟ اس کی کوئی نشانی بتاؤ؟” چنانچہ مغربی شخص نے اس تھیلی کی نشانیاں بتانا شروع
کیں اور پھر کہنے لگا:” اس میں لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں اورامانت رکھنے والوں کے نام بھی اس تھیلی میں موجود ہیں کہ فلاں کی اتنی رقم امانت ہے اورفلاں کی اتنی۔”اس معذور شخص نے کہا:” تم میں سے پڑھنا کون جانتاہے ؟”حضرت سیدنا ابن عسکر بخاری علیہ رحمۃ اللہ الباری نے فرمایا: ”میں پڑھنا جانتاہوں۔”تواس معذور شخص نے کہا:” تم سب میرے ساتھ آؤ۔” چنانچہ ہم اس کے ساتھ چل دیئے، وہ ہمیں راستے سے ایک طرف ایک وادی میں لے گیا پھر اس نے ایک جگہ سے تھیلی نکالی اور مجھے پکڑ ادی پھر اس مغربی شخص سے کہا:” بتاؤ! اس تھیلی میں کس کس کی کتنی کتنی رقم امانت ہے ؟” مغربی شخص نے بتایا :”پانچ سودرہم فلاں بن فلاں کے ہیں، سو درہم فلاں کے ہیں۔” اسی طرح اس نے سب کے نام گنوا دیئے، میں ساتھ ساتھ سب کے نام پڑھتا جا رہاتھا جس طرح مغربی شخص نے بتایا تھا واقعی اسی طرح اتنی ہی مقدار میں رقم تھیلی میں موجود تھی ۔
پھر اس معذور شخص نے کہا:” یہ تھیلی اس مغربی شخص کو دے دو۔” چنانچہ میں نے وہ تھیلی اس شخص کو دے دی ،اس نے اپنی طرف سے ایک ہزار دینار اس معذور شخص کو دیتے ہوئے کہا :”یہ تمہارا انعام ہے جس کا میں نے وعدہ کیا تھا کہ جو شخص ہماری تھیلی ڈھونڈکر دے گا اسے ایک ہزار دینار بطورِ انعام دیئے جائیں گے لہٰذا تم اس انعام کے مستحق ہو، لو! یہ ایک ہزار دینار رکھ لو۔ ” اس معذور شخص نے کہا: ”میرے نزدیک تمہاری اس تھیلی کی قیمت دو مینگنیوں جتنی بھی نہیں پھر میں تم سے ایک ہزار دینار کیسے لے لوں ؟”جاؤ! مجھے تمہاری رقم کی ضرورت نہیں۔” اتنا کہنے کے بعد وہ معذور شخص وہاں سے اٹھا اور ایک جانب چل دیا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
(سبحان اللہ عزوجل !اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے دلوں میں دنیاوی مال ومتاع کی کوئی وقعت نہیں ہوتی، ان کی نظروں میں بڑی سے بڑی رقم بھی حقیر ہوتی ہے ،انہیں مال ودولت کی حرص نہیں ہوتی بلکہ ان کامقصد تو رضائے الٰہی عزوجل کا حصول ہوتا ہے، وہ آخرت کے طالب ہوتے ہیں اور اس کی طلب میں دن رات تگ ودو کرتے ہیں ۔ انہیں نہ تو دنیا سے سروکار ہوتاہے اورنہ ہی دنیا داروں سے ۔وہ تو بس اپنے خالق حقیقی عزوجل کی خوشنودی چاہتے ہیں اورہر کام اسی کی رضا کے لئے کرتے ہیں، اللہ عزوجل ہمیں بھی ان بزرگوں کے صدقے دنیاوی مال ودولت کی حرص سے بچائے اورآخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطافرمائے ،دنیا کی محبت ہمارے دلوں سے مٹا کر اپنی محبت کی نعمت سے ہمیں مالا مال فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ مرے دل سے دنیا کی الفت مٹا دے
مجھے اپنا عاشق بنا یا الٰہی عزوجل!