حکایت نمبر456: غلام کوآزادی کیسے ملی۔۔۔۔۔۔؟
حضرتِ سیِّدُنا زِیادبن ابی زِیادمَدِیْنِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی فرماتے ہیں :”مجھے میرے آقا ابن عیاش بن ابی ربیعہ نے امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر کے پاس اپنے کسی کام سے بھیجا۔ جب میں ان کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس وقت ایک کاتب ان کے پاس بیٹھا لکھ رہا تھا ۔میں نے ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ” کہا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ”وَعَلَیْکُمُ السَّلَام”کہااور کاتب کو احکامات لکھوانے میں مصروف رہے۔ میں نے پھر کہا :اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَ المُؤْمِنِیْنَ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ،۔ اس وقت ایک خادم بصرہ سے آنے والی شکایت سنا رہا تھا ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا دوسرا سلام سن کرارشاد فرمایا: ”اے ابنِ ابی زیاد !ہم تیرے پہلے سلام سے غافل نہیں ۔”پھر مجھ سے بیٹھنے کو کہا تو میں دروازے کی چوکھٹ کے پاس بیٹھ گیا ۔ کاتب بصرہ سے آنے والی شکایات سنا رہا تھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرد آہیں بھر رہے تھے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کام سے فارغ ہوئے توکمرے میں موجود تمام لوگوں کو باہر جانے کاحکم دیا، سوائے میرے وہاں کوئی بھی باقی نہ رہا۔ سردیوں کا موسم تھا میں نے اُونی جبہ پہنا ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے سامنے بیٹھ گئے اور میرے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا:”واہ بھئی !تم سردیوں میں گرم جبہ پہن کر کتنے پُرسکون ہو۔”پھر مجھ سے اہلِ مدینہ کے صالحین، بچوں ،عورتوں اورمردوں کے متعلق حال دریافت کیا یہاں تک کہ ہر ہر شخص کے بارے میں پوچھا۔ پھر مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرْفًاوَّتَعْظِیْمًاکے حکومتی نظام کے متعلق پوچھا۔
میں نے تفصیل بتائی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے غور سے ہر ہر بات سنتے رہے پھر فرمایا:”اے ابن زیاد! تم دیکھ رہے ہوکہ میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں ۔”میں نے کہا:”امیر المؤمنین! آپ کو خوشخبری ہو، میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں خیر ہی کی امید رکھتا ہوں۔”پھر عاجز ی کرتے ہوئے فرمانے لگے: ”افسوس! ہائے افسوس !کیسی خیر،کیا بھلائی! میں لوگوں کو ڈانٹتا ہوں لیکن مجھے کوئی نہیں ڈانٹتا،میں لوگوں کو زَدْوکوب کرتا ہوں لیکن مجھے کوئی نہیں مارتا،میں لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہوں لیکن مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاتا”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کلمات دہراتے جاتے اور روتے جاتے یہاں تک کہ مجھے آپ پر ترس آنے لگا۔ پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری حاجات پوری فرمائیں اور میرے آقا کی طرف لکھ کر بھیجا: ”یہ غلام ہمارے ہاتھوں فروخت کر دو۔”پھر اپنے بستر کے نیچے سے بیس (20)دینار نکالے اور مجھے دیتے ہوئے فرمایا: ”یہ لو، انہیں اپنے استعمال میں لانا ،اگر تمہارا غنیمت میں حصہ بنتا تو وہ بھی ضرور تمہیں دیتا لیکن کیا کروں تم غلام ہو اس لئے مالِ غنیمت میں تمہاراکچھ حصہ نہیں۔” میں نے دینار لینے سے انکار کیا تو فرمایا: ”یہ میں اپنی ذاتی رقم میں سے تمہیں دے رہا ہوں۔”میں نے پھر انکا ر کیا مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیہم(یعنی مسلسل) اصرار سے مجبور ہو کر مجھے وہ دینار لینے ہی پڑے ۔پھر میں واپس آگیاپھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے آقا کو
پیغام بھیجا : ”یہ غلام ہمارے ہاتھوں فروخت کر دو۔” لیکن انہوں نے مجھے بیچانہیں بلکہ آزاد کردیا۔اس طرح امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُناعمربن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید کی برکت سے ایک غلام کو آزادی نصیب ہوگئی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)