غزوہ احزاب کی آندھی
”غزوہ احزاب ” ۴ یا ۵ ھ میں پیش آیا۔ اس جنگ کا دوسرا نام ”غزوہ خندق”بھی ہے۔ جب ”بنونضیر”کے یہودیوں کو جلاوطن کردیا گیا تو یہودیوں کے سرداروں نے مکہ جا کر کفار مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کی ترغیب دلائی اور وعدہ کیا کہ ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ ان یہودیوں نے کثیر تعداد میں ہتھیار اور رقم دے کر کفار مکہ کو مدینہ پر حملہ کرنے پر ابھار دیا۔ اور ابو سفیان نے مشرکین و یہودیوں کے بہت سے قبائل کو جمع کر کے ایک عظیم فوج کے ساتھ مدینہ پر دھاوا بول کر حملہ کردیا۔ مکہ سے قبیلہ ”خزاعہ” کے چند لوگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی ان تیاریوں کی اطلاع دے دی تو آپ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے مدینہ کے گرد ایک خندق کھدوانی شروع کردی۔ اس خندق کو کھودنے میں مسلمانوں کے ساتھ خود رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کام کیا۔ مسلمان خندق کھود کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ مشرکین ایک لشکر ِ جرار لے کر ٹوٹ پڑے اور مدینہ طیبہ پر ہلہ بول دیا۔ اور تین طرف سے کافروں کا لشکر اس زور و شور کے ساتھ امنڈ پڑا کہ شہر
مدینہ کی فضاؤں میں ہر طرف گرد و غبار کا طوفان اٹھ گیا۔ اس خوفناک چڑھائی اور لشکر ِ کفار کی معرکہ آرائی کا نقشہ قرآن کی زبان سے سنیئے۔
اِذْ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنۡکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوۡبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللہِ الظُّنُوۡنَا ﴿10﴾ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوۡنَ وَ زُلْزِلُوۡا زِلْزَالًا شَدِیۡدًا ﴿11﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔جب کافر تم پر آئے تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے اور جب کہ ٹھٹک کر رہ گئیں نگاہیں اور دل گلوں کے پاس آگئے اور تم اللہ پر طرح طرح کے گمان کرنے لگے (امید و یاس کے)وہ جگہ تھی کہ مسلمانوں کی جانچ ہوئی اور خوب سختی سے جھنجھوڑے گئے۔ (پ 21،الاحزاب:10۔11)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس لڑائی میں منافقین جو مسلمانوں کے دوش بدوش کھڑے تھے وہ کفار کے ان لشکروں کو دیکھتے ہی بزدل ہو کر پھسل گئے اور ان کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔ اور وہ جنگ سے جان چرا کر اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھے رہنے کی اجازت طلب کرنے لگے ۔لیکن اسلام کے سچے جاں نثار مہاجرین و انصار اس طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ گئے کہ کوہ سلع اور کوہ احد کی پہاڑیاں سر اٹھا اٹھا کر ان مجاہدین کی اولوالعزمیوں اور جاں نثاریوں کو حیرت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں ۔ان فدا کاروں کی ایمانی جراء ت و اسلامی شجاعت کی تصویر صفحات قرآن پر بصورت تحریر دیکھئے خداوند عالم کا ارشاد ہے:۔
وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَمَا زَادَہُمْ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسْلِیۡمًا ﴿ؕ22﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور جب مسلمانوں نے کافروں کے لشکر دیکھے بولے یہ ہے وہ جو ہمیں وعدہ دیا تھا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچ فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے اور اس سے انہیں نہ بڑھا مگر ایمان اور اللہ کی رضا پر راضی ہونا۔(پ21،الاحزاب:22)
کفار نے جب مدینہ کے گرد خندق کو حائل دیکھا تو حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو ایسی تدبیر ہے کہ جس سے عرب کے لوگ اب تک ناواقف تھے۔ بہرحال کافروں نے خندق کے کنارے سے مسلمانوں پر تیر اندازی اور سنگباری شروع کردی۔ کہیں کہیں سے کافروں نے خندق کو پار بھی کرلیا اور جم کر لڑائی بھی ہوئی۔ مسلمان کافروں کے اس محاصرہ سے گو پریشان تھے۔ مگر ان کے عزم وا ستقلال میں بال برابر بھی فرق نہیں آیا۔ وہ اپنے اپنے مورچوں پر جم کر دفاعی جنگ لڑتے رہے۔ اچانک ایک دم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس طرح مدد فرمائی کہ ناگہاں مشرق کی جانب سے ایک ایسی طوفان خیز اور ہلاکت انگیز شدید آندھی آئی جو قہرِقہار و غضبِ جبار بن کر لشکر کفار پر خدا کی مار بن گئی۔ دیگیں چولہوں سے الٹ پلٹ ہو کر ادھر اُدھر لڑھک گئیں۔ خیمے اکھڑ اکھڑ کر اُڑ گئے اور ہر طرف گھٹاٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ اور شدید سردی کی لہروں نے کافروں کو جھنجھوڑ ڈالا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فوج بھیج دی جن کے رعب و دبدبہ سے کفار کے دل لرز گئے۔ اور اُن پر ایسی دہشت و وحشت سوار ہو گئی کہ انہیں راہِ فرار اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا۔ چنانچہ لشکر ِ کفار کے سپہ سالار ابو سفیان نے ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے لشکر میں اعلان کردیا کہ راشن ختم ہوچکا اور موسم نہایت خراب ہے اور یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ لہٰذا اب مدینہ کا محاصرہ بیکار ہے۔ یہ کہہ کر کوچ کا نقارہ بجا دیا اور بہت سا سامان چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ نکلا اور دوسرے قبائل بھی تتر بتر ہو کر ادھر ادھر بھاگ گئے اور پندرہ یا چوبیس روز کے بعد مدینہ کا مطلع کفار کے گرد و غبار سے صاف ہو گیا
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(مدارج النبوت (فارسی) ج۲، ص ۱۷۲۔۱۷۳ ، بحث غزوہ خندق )
غزوہ احزاب کی یہی وہ آندھی ہے جس کا ذکر خداوند ِ قدوس نے قرآن میں اس طرح فرمایا ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوۡدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمْ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ؕ
ترجمہ کنزالایمان:۔اے ایمان والو! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر کچھ لشکر آئے تو ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے۔(پ21،الاحزاب:9)
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب کفار کا مقابلہ جنگ میں ہو تو مسلمانوں کو کسی حال میں بھی ہرگز ہرگز مایوس نہ ہونا چاہے اور یہ یقین رکھ کر مقابلہ پر ڈٹے رہنا چاہے کہ ضرور ضرور نصرت خداوندی اور امداد غیبی مسلمانوں کی مدد کر ے گی بس شرط یہ ہے کہ اخلاص نیت کے ساتھ مسلمان ثابت قدم رہیں اور صبر و استقلال کے ساتھ میدانِ جنگ میں ڈٹے رہیں۔ چنانچہ جنگ بدر و جنگ اُحد و جنگ احزاب وغیرہ کفر و اسلام کی لڑائیوں میں یہ منظر نظر آیا کہ انتہائی مشکل حالات میں بھی جب مسلمان ثابت قدم رہے تو غیب سے نصرتِ خداوندی عزوجل اور امداد غیبی نے اس طرح جلوہ دکھایا کہ دم زدن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہو گئی اور کفار باوجود اپنی کثرت و شوکت کے شکست کھا کر بھاگ نکلے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)