حکایت نمبر435: غیبت کے اَسباب
حضرتِ سیِّدُنا بَکْربن احمدعلیہ رحمۃ اللہ الاحدفرماتے ہیں: میں نے حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن احمدعلیہ رحمۃ اللہ الاحد کویہ فرماتے سنا: ”ایک مرتبہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا حَارِث مُحَاسِبِی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے غیبت کے متعلق پوچھا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”غیبت سے بچ!بے شک وہ ایسا شرہے جسے انسان خودحاصل کرتاہے ۔تیرا اس چیزکے بارے میں کیاخیال ہے جوتجھے اِحسان بھولنے پراُبھارے،تجھ سے تیری نیکیاں چھین کرتیرے اُن مخالفین کو دے دے جن کی تُونے غیبت کی ہے۔یہاں تک کہ وہ تیری نیکیوں سے راضی ہو جائیں کیونکہ بروزِ قیامت درہم ودینارکام نہیں آئیں گے۔بے شک! جتناتُومسلمانوں کی عزت سے لے گااتنی مقدارمیں تیرادین تجھ سے لے لیاجائے گا،لہٰذاغیبت سے بچ،غیبت کے منبع(یعنی نکلنے کی جگہ)اورسبب کوپہچان کہ تجھ پر غیبت کن جگہوں سے آتی ہے ۔
توجہ سے سن !بے شک بے وقوف اورجاہل لوگ غیبت میں ایسے پڑتے ہیں کہ گنہگاروں پرخواہ مخواہ غصَّہ کرتے اوران سے حسد اوربدگمانی کرتے ہیں اور اس غصے کودینی غیرت کانام دیتے ہیں۔یہ ایسی برائیاں ہیں جوبالکل ظاہرہیں پوشیدہ نہیں۔ اہلِ علم غیبت میں اس طرح مبتلا ہوتے ہیں کہ شیطان ان کواپنے مکرمیں پھنسا لیتاہے ،وہ کسی کی برائی بیان کرتے ہیں توکہتے ہیں: ”ہم تواس کی نصیحت کے لئے ایساکررہے ہیں۔ہم تواس کے خیر خواہ ہیں ۔”حالانکہ ایسانہیں کیونکہ اگر واقعی وہ خیرکے طالب ہوتے توکبھی غیبت جیسی برائی میں نہ پڑتے اوران کی نصیحت غیبت پرمعاون نہ ہوتی ۔ علماء میں سے جب کوئی عالم کسی کی برائی بیان کرتاہے توکہتاہے : کیارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے یہ حدیث مروی نہیں:”کیاتم برے شخص کا تذکرہ
کرنے سے بچتے ہو؟اس کی برائی بیان کرو تاکہ لوگ اس سے اجتناب کریں( یعنی بچیں)۔”
(الموسوعۃ لابن أبی الدنیا،کتاب الغیبۃ والنمیمۃ،باب الغیبۃ التی یحل ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۸۴،ج۴،ص۳۷۴)
اس حدیث کودلیل بناکر لوگوں کی غیبت کی جاتی ہے۔حالانکہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ نفس کی خاطرکسی مسلمان کی برائی بیان کی جائے نہ ہی یہ ثابت ہوتاہے کہ تو مسلمان کی اس برائی کو خواہ مخواہ لوگوں پرظاہرکرے جس کا تجھ سے سوال ہی نہیں کیا گیا ، ہاں! اگرکوئی تیرے پاس آئے اورکہے: ” میں فلاں شخص سے اپنی بیٹی کی شادی کر نا چاہتاہوں، آپ اس بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں ؟” تو اب اگر تُواس شخص کی بری اورنامناسب باتیں جانتاہے یا یہ جانتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی حرمت کاخیال نہیں رکھتا تو اب تجھے جائزنہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کومشورہ دینے میں خیانت سے کام لے ۔بلکہ اسے احسن طریقے سے اس جگہ شادی کرنے سے روک دے۔
اسی طرح اگرکوئی شخص تیرے پاس آکرکہے: ”میں فلاں کے پاس کچھ رقم امانت رکھناچاہتاہوں ۔آپ کااس بارے میں کیا مشورہ ہے ؟” اگرتُواس شخص کے بارے میں جانتاہے کہ وہ امانت رکھنے کے قابل نہیں تو تیرے لئے جائزنہیں کہ ا پنے مسلمان بھائی کے مال کوضائع کروائے بلکہ اسے احسن طریقے سے اس کے پاس امانت رکھنے سے روک دے۔اسی طرح ا گر کو ئی پوچھے کہ ”فلاں کے پیچھے نمازپڑھناچاہتاہوں یافلاں کواستاد بناناچاہتاہوں،آپ کی اس بارے میں کیارائے ہے ؟” تواگر تُواس کو امام یا استاد بننے کے قابل نہیں سمجھتاتوضروری ہے کہ سائل کواَحسن طریقے سے منع کرد ے۔ لیکن ان تمام باتوں میں دل کی بھڑاس نکالنا مقصود نہ ہو بلکہ احسن طریقہ اختیار کیا جا ئے۔
توجہ سے سن!قاریوں ،عابدوں اورزاہدوں کے غیبت میں پڑنے کاسبب” تعجب ”ہے ۔وہ تعجب کااظہارکرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کربیٹھتے ہیں۔ پھرکہتے ہیں کہ ہم توتعجب کررہے ہیں ۔حالانکہ اس تعجب ہی میں وہ مسلمان کی برائی بیان کر جاتے ہیں اوراس کی غیرموجودگی میں ایسی بات کرتے ہیں جوایذاء کاسبب ہوتی ہے ۔پس یہ لوگ اس طرح اپنے مسلمان بھائیوں کاگوشت کھانے لگتے ہیں ۔رہے استاد ،سرداراورحاکم وہ شفقت ورحمدلی کے طریقے سے غیبت کی گہری کھائیوں میں جا گرتے ہیں۔مثلاََکوئی استاذیاسرداراپنے شاگرد یا ماتحت کے بارے میں کہتاہے: ”افسوس!بے چارہ مسکین فلاں فلاں کام میں پڑ گیا، ہائے ہائے! بے چارہ فلاں برائی کامرتکب ہوگیا۔” اس طرح کی باتیں کرکے وہ سمجھتاہے کہ میں اس سے محبت اورشفقت کی وجہ سے ایساکہہ رہا ہوں حالانکہ وہ غیبت جیسی برائی میں پڑچکاہوتاہے۔پھریہ استاداپنے شاگردکی برائی کودوسروں کے سامنے ظاہر کرتا اورکہتا ہے:”میں نے تمہارے سامنے اس کی برائی اس لئے بیان کی تاکہ تم اپنے بھائی کے لئے کثرت سے دعا کرو۔” اپنے گمان میں یہ اسے شفقت ومحبت سمجھتاہے لیکن حقیقت میں یہ غیبت کررہاہوتاہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ میں شیطان کے خفیہ واروں سے بچائے۔ہم اللہ ربُّ العِزّت کی بارگاہ میں دعاکرتے ہیں کہ وہ ہمیں مسلمانوں کی غیبت کرنے سے محفوظ رکھے۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
اے میرے بیٹے! غیبت سے کوسوں دوربھاگ!ہمیشہ اس سے بچتارہ،بے شک قرآن مجیدمیں غیبت کومُردارکاگو شت کھانے کی طرح کہاگیاہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا
ترجمۂ کنزالایمان: کیاتم میں کوئی پسندرکھے گاکہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے۔(پ26،الحجرات: 12)
اسی طرح غیبت کی مذمت پر حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بہت سی احادیث ِمبارکہ مروی ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں غیبت کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے ۔( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!غیبت ہمارے معاشرے کاایک ایسا ناسُورہے جس نے مسلمانوں کی محبت کے بندھن کو توڑنے میں بہت گھناؤنا کرداراداکیاہے۔اسی برائی کے سبب مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے درمیان ذلیل و رُسوا ہو رہا ہے۔اس خصلتِ بدنے ایک دوسرے کی عزت وتکریم کے جذبے کوملیامیٹ کرکے رکھ دیاہے ۔نہ توغیبت کرنے والااس برائی سے بچنے کی کوشش کرتاہے اورنہ ہی سننے والے اس کوروکتے بلکہ خودبھی ہاں میں ہاں ملاکراپنے آپ کو گندگی کے عمیق گڑھے میں گرالیتے ہیں۔ غیبت صراحۃً بھی ہوتی ہے اوراشارۃً بھی ،الفاظ سے بھی اورانداز سے بھی ۔غیبت کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے امیرِاہلسنت، بانئ دعوتِ اسلامی حضرتِ علامہ مولاناابوبلال محمدالیاس عطارؔ قادری دامت برکاتہم العالیہ کے انتہائی پُراَثررسالے ”غیبت کی تباہ کاریاں ”کامطالعہ کیجئے۔اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ غیبت جیسی خصلتِ بدسے توبہ کرنے اوردوسروں کو اس برائی سے بچانے کاذہن بنے گا۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں غیبت اوردیگرتمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔)( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)