ماہ صیام میں جو کی خوراک،ماہ صیام تو موسموں سے ماوریٰ مہینہ ہے۔ کبھی یہ سردیوں میں جلوہ گر ہوتا ہے تو کبھی گرمیوں میں ۔۔۔اس بار ماہ رمضان نہ صرف شدید گرمیوں میں ہے بلکہ اس کا دورانیہ بھی 15/16 گھنٹوں کے لگ بھگ ہوگا،میں یہ کبھی بھی نہ کہوں گا کہ سحری میں الائچی کا استعمال شروع کر دیں،اور یہ بھی نہ بولوں گا کہ سحری میں دہی کا استعمال بڑھادیں، کیوںکہ ایسی خوراک سے روزہ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے بندہ جائے تو حج کرنے مگر وہ صعوبت، مشکلات ، دوسروں کو اولیت دینے اور صبر کا ذائقہ چکھنے سے محروم رہے ۔۔۔
تو کیا خیال ہے دوستو ۔۔۔آپ سے ایک ایسی خوراک شیئر نہ کی جائے، جو نہ صرف روزہ رکھنے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے بلکہ جسم کو تقویت بھی فراہم کرتی ہے ۔۔۔
تو سنیے! صبح سحری کے وقت جو کے آٹے کی بنی ڈیڑھ سے دو روٹی تناول کیجیے، جو یقینی بات ہے کہ آپ کو سارا دن بھوک اور تشنگی سے بچائے رکھے گی ۔۔۔
٭جو کی غذائی اہمیت
جو کی غذا کی اہمیت کا اندازہ اسی ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غار حرا میں جب پہلی وحی کا نزول ہو رہا تھا تو اقرا باسم ربک الذی خلق کے نازل ہو تے وقت غار حرا میں نہ کوئی چاول موجود تھے اور نہ ہی کوئی دہی یا گندم کی روٹی موجود تھی بلکہ وہاں جو کی غذا “ستو” کی صورت موجود تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ جو کی غذا غار حرا میں کیوں موجود تھی ! اور یہیں سے جو کی غذا کی اہمیت سمجھ میں آنا شروع ہوجاتی ہے کہ جو کی غذا دراصل ۔۔۔غورو فکر کو تحریک دیتی ہے، انہماک کو بڑھاتی ہے، جس سے بھوک اور تشنگی کا احساس جاتا رہتا ہے۔
٭جو کی غذا کا سائنسی تجزیہ
دوستو۔۔۔جو کی غذا کا اگر میں بحیثیت زرعی سائنس داں سائنسی طور پر جائزہ لوں تو اس میں بنیادی طور پر 3 اجزاء وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔
پہلا اس میں بیٹا گلوکان ہے جو توانائی کا ایک زبردست پیکٹ ہے۔دوسرا اس میں تمام کے تما م ضروری امائنو ایسڈز ہوتے ہیں جو پروٹین کی ایک بھرپور شکل ہوتی ہے۔ اور تیسرا جو کی غذا عمدہ قسم کے فائبرز سے لیس ہے اور یہ تینوں اجزاء Bulking agents کے طور پر ہمارے جسم کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں یعنی روزہ کی صورت میں نہ کوئی چیز باہر سے جسم کے اندر آسکتی ہے اور نہ ہی کوئی شے روزہ دار کے جسم کے اندر سے باہر جا سکتی ہے۔ اور ایسے ماحول میں جب نہ کوئی چیز خارج ہو رہی ہو اور نہ ہی کوئی چیز اند آرہی ہو، تو ایک Static سی صورت حال بن جایا کرتی ہے ۔۔ یعنی باہر اور اندر نکلنے کی افراتفری ہی ختم ہو جائے تو سکون طاری ہو جاتا ہے۔
ہمارے جسم کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ روزہ دار کے جسم کا Static پوزیشن پر آتے ہی بھوک کا احساس مٹ جاتا ہے۔
٭ترقی یافتہ ممالک کی جو پر کی جانے والی جدید تحقیق
یورپین ممالک سے ایک جدید ترین تحقیق منظر عام پر آئی ہے، خیر
اس تحقیق سے 1400 سال قبل ہی میرے اور آپ کے پیارے نبی کائناتﷺ اور جان کائناتﷺ کہ جن پر ہماری اور ہمارے آباؤ اجداد اور تمام آنے والی نسلوں کی جانیں بھی قربان ہونے کے لیے بے قرار رہتی ہیں کا فرمان عالی شان موجود ہے کہ جو کی غذا میں 100 کے قریب بیماریوں کا علاج پنہاں ہے۔
ہم اسٹیویا کی طرف بھاگ رہے ہیں ہم مورنگا کی کاشت کی جانب دوڑ رہے ہیں جو ہمارے ملک کی فصلیں بھی نہیں ہیں، مگر اسے کیا کہے کہ ہمارے ملک میں جو کی فصل کو فقط ڈھور ڈنگروں کی خوراک تک محدود کر دیا گیا ہے اور بارلے پر کی جانے والی تحقیق تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے BRI یعنی ادارہ تحقیقات جو (Barley Research Institute) کا قیام وقت کی شدید ضرورت بن گیا ہے اور اس ادارہ کے قیام میں پاکستان بھر سے وہی شخص آگے آسکتا ہے جسے غیروں کی غذا (اسٹیویا، مورنگا وغیرہ ) پر ریسرچ کی بجائے نبی رحمتﷺ کی غذاؤں سے عشق ہوگا ۔۔۔۔
متذکرہ حدیث کے مطابق اگر ہم بیماریوں کے نام شمار کرنا شروع کریں تو ملیریا، ٹائیفائڈ، ہیضہ، پیچش وغیرہ 40 کے قریب امراض کا نام ذہن میں آئیں گے مگر حدیث کے مطابق میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ قیامت تک کی آنے والی بیماریوں کا علاج بھی جو کی غذا میں پنہاں ہے۔
بات ہورہی تھی جدید تحقیق کی۔ ترقی یافتہ ممالک نے کہا ہے کہ چار قسم کی بیماریاں جن میں ٹینشن، شوگر، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر شامل ہیں ، ان میں سے کوئی ایک بیماری کسی بھی شخص کو اگر لاحق ہے تو وہ گندم کے آٹے کی روٹی کھانا چھوڑ دے، آدھی بیماری اس کی ختم ہوجاتی ہے۔
یعنی اس نے ٹینشن، شوگر، کولیسٹرول یا اپنے بلڈ پریشر سے نجات کے لیے ابھی کوئی دوائی وغیرہ بھی نہیں لی، فقط گندم کے آٹے سے بنی روٹی کو ترک کیا ہے تو آدھا صحت مند ہوجاتا ہے، تو پھر وہ گندم سے بنی روٹی کی جگہ کیا کھائے۔ یورپین ممالک نے دو قسم کے آٹوں سے بنی روٹی کھانے کی سفارش کی ہے، ایک مکئی کے آٹے سے بنی روٹی اور دوسرا جو کے آٹے سے بنی روٹی۔ اور اگر کوئی مجھ سے دریافت کرے کہ تم کونسے آٹے سے بنی روٹی کھانے کو ترجیح دو گے تو میرا جواب سوائے نسبت کے کیا ہو سکتا ہے۔ بھلا کس آٹے سے بنی روٹی کو نبی رحمتﷺ سے نسبت ہے اور جو غذاء الغربا بھی کہلاتی ہے۔
٭ موسمِ برسات اور روزہ
بعض اوقات روزہ کے عالم میں یا تو سارا دن موسم ابر آلود رہتا ہے یا پھر بارش ہوتی رہتی ہے اور روزہ دار خوش رہتے ہیں کہ چلو شدید گرمی سے جان چھوٹی اور حبس کے عالم میں آج کا روزہ ٹھنڈا رہا اور گرمی برداشت نہ کرنی پڑی اور پھر ایسے میں افطار کے وقت گرماگرم سموسے، پکوڑے چلتے رہتے ہیں اور یہی لوگ کہتے ہیں کہ موسمِ برسات سے ستو کا کیا تعلق! یہ تو گرمیوں کا مشروب ہے۔ ٹھیک ہے آپ صحیح فرما رہے ہیں، مگر یہ دیکھیں کہ روزے کے عالم میں سارا دن نہ کچھ کھا پی کر روزہ دار کے جسم کے اندر گرمی ہوگی یا اسے ٹھنڈک محسوس ہو گی، بھلے سارا دن بارش ہی کیوں نہ ہوتی رہے۔ موسم برسات میں اور بھلے سارا دن بارش بھی ہوتی رہے تو افطار کے وقت اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ذرا لمس محسوس کریں۔ آپ کو اپنے جسم کے اندر تپش اور آگ سی لگی ہوئی محسوس ہو گی۔ آپ کے جسم کے اندر انتڑیاں، وینز، آرٹریز، معدہ ، ایسو فیگس حتیٰ کہ گردہ تک آپ کو گرمی سے جھلستا ہوا ایسے محسوس ہوگا کہ جیسے جسم میں کوئی آگ سی لگی ہو۔ اور ایسے میں اوپر سے گرما گرم پکوڑے، چپس اور سموسوں سے افطاری کرتے ہوئے اپنے تمام اعضاء مزید گرم آلود اور تپش زدہ ہوکر اپنے افعال کی معیاری کاردگی سے ہٹ جائیں گے۔
اب آپ خود سوچیے کہ گرمی سے جھلسے اعضاء کی تپش سموسوں، پکوڑوں سے بجھے گی یا افطار کے وقت ستو سے کم ہو گی!
یہاں پر سوفٹ ڈرنکس کے بارے میں بھی ضمناً کہتا چلوںکہ صبح نہار منہ یا افطاری کے وقت بندے کے جسم کی حالت ایک جیسی ہی ہوتی ہے اس سمے یعنی خالی پیٹ اگر آپ سوفٹ ڈرنکس پی لیں تو آپ خود اپنے جسم کو کینسر جیسی موذی مرض کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں، لہٰذا سوفٹ ڈرنکس تو افطار میں بالکل بھی نہیں ہونی چاہییں۔ رہی بات افطار کے وقت مشروب ستو کی جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں برسات میں ستو نہیں پینا چاہیے تو اس پر عرض ہے کہ ماہ صیام تو موسموں سے ماوریٰ مہینہ ہے چاہے گرمیوں میں آئے یا سردیوں میں اور یا پھر موسم برسات میں ہی کیوں نہ ماہ صیام وارد ہو، مگر نبی رحمتﷺ نے روزہ افطار کرنے کی سعادت ستو کو بخشی ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ روزہ کس موسم میں ہے ہمیں تو نسبت نبھانا ہے۔ اور ویسے بھی نبیٔ رحمتﷺ سے روزہ افطار کرنے کی نسبت کی سرشاری ہی الگ ہے۔