(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
فلیزم ویتب المشتاھر ونادیہ واذنابہ ومقلدہٗ بفتح لام ۔
سردار دوجہاں کا ارشاد ہے ، جب امام ’’ اللہ اکبر ‘‘ کہے تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب امام قرآن پڑھنا شروع کر دے تم خاموش رہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم پانچ وقت کے فرضوں میں بحالتِ امامت کم سے کم فی رکعت چار پانچ مرتبہ آواز سے اللہ اکبر فرماتے تھے ، آمین بحالت امامت ایک دو مرتبہ بلند آواز سے کرنے میں بھی اختلاف ہے ، اور تم آمین بلند آواز سے کہنے میں مقتدی ہوکر ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہو ، مسلمانوں کو یہودیوں کے ساتھ تشبیہ کرتے ہو، بعض جگہ لڑکوں کو دو پیسے تین پیسے دے کر آمین بلند آواز سے کراتے ہو، جس کی کوئی اصل شرع میں نہیں ہے ، اللہ اکبر نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے بحالتِ امامت ہمیشہ بلند آواز سے فرماتے رہے ہیں ، اس میں کسی بھی(طرح کا) اختلاف نہیں ، یہی سنت اب تک پیش اماموں میں جاری ہے ۔ تم ایک وقت بھی مقتدی ہو کر بلند آواز سے اللہ اکبر نہیں پکارتے اور تقسیم تمہاری خیزی ہے ، (تیڑھی ) کیا تمہارے نزدیک آمین کی آواز اللہ اکبر سے بھی افضل ہے ؟ امید ہے کہ آپ لوگ پانچ وقت کی نمازوں میں ہر ایک رکعت میں چار پانچ مرتبہ مقتدی ہوکر اللہ اکبر کی آوازیں کستے رہوگے ، تمہاری مسجدیں گونجتے رہیں گے ، مردہ سنت کو زندگی بھی عطا ہوجائے اور تم کو سو شہیدوں کا درجہ بھی مل جائے گا ، ورنہ یہ دعوی تمہارا اور تمہارے مدیر کا ہم مردہ سنتوں کے زندہ کرنے کے در پے ہیں چھوٹ سمجھا جائے گا مجھے صرف تمہاری اصلاح مدنظر ہے کیونکہ تم بھی انسان اور مسلمان کہلواتے ہو ، تم تو مجبور ہو تمہارا کوئی قصور نہیں ، اس لئے کہ تم کو علم نہیں ، قصور تو اس کا
ہے جس نے تم کو گمراہ بنا دیا ہو ، اس وقت تمہاری ٹکڑی قلق اور اضطراب میں ہے ، نہ اس تمہارے طریقہ کو چھوڑ سکی ، اگر اس کو چھوڑ دیتے تو لو گ ان پر ہنستے ہیں ، اگر اس طریقہ پر رہیں گے تو بے اصل اور بے سند ہیں ، کوئی ایک بات اپنے دعویٰ کے مطابق ثابت نہیں کرسکتی چنانچہ ناظرین ہمارے اشتہاروں کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہوں گے کہ تین ہی سوالوں سے حدیث کی منڈی کا دیوالہ نکل گیا ، باقی دس ان پر قرض رہ گئے ، سنیوں کو لازم ہے اس قرض کا تقاضا ان سے ہمیشہ کرتے رہیں غرض
:
دوگونہ آفت ست جان مجنوں را
بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ایک شیعہ کو نماز پڑھتے دیکھا رکوع کے رفع الیدین کے علاوہ سجدے کو جاتے وقت اور سجدے سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے یہی ان کا مذہب ہے ، ان سے پوچھا یہ کس کی حکم ہے جواب دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھ کو دیکھتے ہو نماز پڑھتے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم رکوع جاتے وقت ، رکوع کرتے وقت ، رکوع سے اٹھتے وقت ، سجدے میں جاتے وقت ، سجدے سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے ، صحابہ رضی اللہ عنہ دیکھتے تھے لہٰذا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم ثابت ہوگا ، میں نے کہا اس حدیث میں وہ کونسا لفظ ہے جو رکوع کے رفع الیدین اور سجدے کے رفع الیدین پر دلالت کرتا ہو ، یایہ ثابت کرو جس وقت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم رکوع اور سجدے کی رفع الیدین کی اسی وقت حدیث مذکور فرمائی ہیں ،یا یہ ثابت کرو کہ اس حدیث مذکور کو رفع الیدین کرنے سے پہلے فرمائی تھی ، یہ سن کر وہ حیران و ششد رہ گئے ، میں نے کہا وہابی بھی اس حدیث کو پیش کرتے ہیں جب ان سے سوال کرتے ہیں سینے پر ہاتھ باندھنا ، آمین پکارنا ، رفع الیدین کرنا کس کا حکم ہے ؟ وہابی تو کہتے ہیں سجدے کی رفع الیدین منسوخ ہوگئی ، اب تم شیعہ سچے ہو یا وہابی ؟ حقیقت یہ ہے کہ حدیث مذکور کو ان افعال کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ، نہ اس حدیث میں کوئی لفظ ایسا ہے جو افعال مذکور پر دلالت کرتا ہو بلکہ حدیث مذکور کا مطلب یہ ہے کہ ارکان نماز کو پوری طرح اطمینان سے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو ، اسی پر دلالت کرتا ہے ۔
ارشاد عزوجل ہے : ھم فی صلواتھم خاشعون ۔ اس لئے ارکان داخل ماہیت نماز ہیں افعال مذکور ، زاتد عن الارکان خارج عن الماھیت ، نماز میں حدیث مذکور ان افعال کے ثبوت میں پیش کرنا پیش کرنے والے کی بے علمی اور جہالت پر دلالت کرتا ہے ، باقی رہا وہابی کا کہنا سجدہ کی رفع الیدین منسوخ ہوگئی ، اصل میں یہ ہے ، رفع الیدین منسوخ ہوگئی ، خواہ وہ رکوع کی ہو یا سجدہ کی یا قعدہ میں بیٹھ کر سلام کرتے وقت ہاتھ اٹھانا ہو ، یہ مختصر ہے ، اس وقت مسئلہ کی تفصیل کی گنجائش نہیں ، ان شاء اللہ اگر موقع مل جائے یہ مسئلہ تفصیل کے ساتھ ہدیہ ناظرین کردیا جائے گا ۔