حکایت نمبر387: ایک ولیَّہ کاعارفانہ کلام
حضرتِ سیِّدُنا اَبُوالْاَشْہَب ابراہیم بن مُہَلَّب علیہ رحمۃ اللہ الرب فرماتے ہیں: ”ایک مرتبہ دورانِ طواف میں نے ایک عورت کو دیکھا جو خانۂ کعبہ کا غلاف تھامے بڑے دردبھرے انداز میں یہ صدائیں بلند کر رہی تھی: ” اے اُنسیت کے بعد آنے والی وحشت! ہائے، عزت کے بعد ذلت! اے غناء کے بعد آنے والی تنگدستی ومحتاجی!” اس کی دردبھری آواز سن کر میں نے پوچھا: ”تمہیں کیا غم ہے؟ کیا تمہارا مال واسباب گم ہوگیا ہے یا تمہیں کوئی بڑی مصیبت آپہنچی ہے؟”
وہ میری جانب متوجہ ہوئی اور کہا: ”مال واسباب نہیں بلکہ میرا دل گم ہوگیا ہے۔” میں نے کہا:” صرف اس مصیبت کی وجہ سے تم پریشان ہو؟” اس نے کہا :”دل گم ہوجانے اور محبوب سے جدا ہوجانے سے بڑی اور کیا مصیبت ہوگی؟” میں نے کہا: ”تیری بلند آوازی وخوش آوازی نے سامعین کو طواف سے روک دیاہے، اپنی آواز پست رکھ ۔’ ‘ اس نے کہا : ”اے شیخ! یہ تیرا گھر ہے یا اس (پروردگار عَزَّوَجَلَّ ) کا؟”میں نے کہا: ”یہ گھر اسی کا ہے۔” کہا : ”یہ تیرا حرم ہے یا اس کا ؟” میں نے کہا: ”یہ حرم بھی اسی خدا ئے بزرگ وبَر تَر کاہے ۔” کہا:” اے شیخ! ہمیں چھوڑ دے ! ہمیں اپنے محبوب سے جتنی اُلفت ومحبت اور ملاقات کا شوق ہے اسی قدر ہم اس کی بارگاہ میں عرض و ناز کرتے ہیں۔” پھر کہا : ” اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ تجھے مجھ سے محبت کا واسطہ! مجھے میرا گمشدہ دل عطا فرما دے۔” میں نے کہا :” اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! تجھے کیسے معلوم ہوا کہ وہ تجھ سے محبت کرتا ہے۔” کہا : مجھ پراس کی عظیم عنایتیں اس بات کا ثبوت ہيں کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ دیکھو! اس نے میرے لئے لشکر تیار کئے ، جنہوں نے مال واسباب خرچ کیا پھر یہاں اس کے گھر تک پہنچے ۔ میرے رحیم وکریم پر وردگار عَزَّوَجَلَّ نے مجھے کفر و شرک کی تنگ وتاریک وادیوں سے نجات عطا فرما کر توحید کے مضبوط ومنور قلعہ میں داخل فرمایا ، میں اس سے جاہل تھی اس نے مجھے اپنی بارگاہ سے مغفرت عطا فرمائی ۔ یہ تمام انعامات دے کر اس نے مجھ پر بے شمار بخششیں فرمائیں، کیا یہ اس کا عظیم کرم نہیں؟”
میں نے کہا:” تجھے اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے کتنی محبت ہے ؟” کہا:” مجھے تمام اشیاء سے زیادہ اس سے محبت ہے ۔” میں نے کہا:” کیا تو محبت سے واقف ہے ؟” کہا :” اے شیخ! اگر میں محبت ہی کو نہ پہچانوں گی تو پھر کس چیز کو پہچانوں گی۔” میں نے کہا:” محبت کیسی ہوتی ہے ۔” بولی :” شراب سے بھی زیادہ رقیق(یعنی پتلی)۔” میں نے پوچھا:” محبت کیا ہے؟” جواب دیا: ”وہ ایسی شئے ہے جسے حلاوت ومٹھاس سے گوندھا گیا، عظمت وجلال کے برتنوں میں اس کا خمیر تیا ر ہوا، اس کی مٹھاس نہ ختم ہونے والی ہے ۔ جب محبت کی زیادتی ہوتی ہے تو وہ ایسا سر کہ بن جاتی ہے جو ہلاک اور جسم کوبے کار کردیتا ہے۔ محبت ایسا شجر ہے کہ جس کا اُگانا نہایت دشوار لیکن اس سے حاصل ہونے والے پھل نہایت لذیذ ہوتے ہیں۔” پھر وہ عورت ایک جانب روانہ
ہوگئی اور اس کی زبان پر چند اشعار جاری تھے، جن کا مفہوم یہ ہے:
” پریشان حال شخص جو مصیبت اور اس پر صبر کرنا نہ جانے تو اس کے لئے آنکھوں میں ایسے آنسو بھر آتے ہیں جن کے ساتھ رونا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ، اور جس کا جسم غم وحزن کی وجہ سے نحیف ولا غر ہوگیا اور محبت کی آگ نے اسے جلا ڈالاہو تو وہ اپنے زخموں کا علاج غم اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کے ذریعے کرے ۔ خاص طورپر وہ محبت جس کا ارادہ بھی مشکل ہوتا ہے تو جب محبت و کرم کی زیادتی کی امید، فنا ہوجانے پر موقوف ہوتو زندگی دو بھر ودشوار ہوجاتی ہے ۔”
وہ اشعار پڑھتی ہوئی جارہی تھی او رمیں حیرت سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا کہ اس عورت نے کیسا عارفانہ کلام کیاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جسے چاہے نواز ے، جس پر چاہے اپنی خاص عنایت فرما دے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)
( اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بھی اپنی سچی محبت عطا فرمائے ہم پر ایسا خاص لطف وکرم فرمائے کہ ہم ہر آن ہر گھڑی اس کی یاد میں مگن رہیں، بس ہر وقت ہماری آنکھو ں کے سامنے اسی کے جلوے اور دل میں اسی کی یادموجزن رہے ۔ ہر ہر لمحہ اس کی عبادت واطاعت میں گزرے ۔ اے کاش ! ہمیں ایسی محبت ملے کہ ہمیں اپنا ہوش نہ رہے بس اسی کی محبت میں گم رہیں۔ )
؎ محبت میں اپنی گما یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ
نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ
( آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)