ایک کنیز کا عارِفانہ کلام

حکایت نمبر283: ایک کنیز کا عارِفانہ کلام

حضرتِ سیِّدُنا جَعْفَرخُلْدی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے منقول ہے کہ میں نے حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :” ایک مرتبہ میں اکیلا ہی سفرِ حج پر روانہ ہوا ، منزلوں پر منزلیں طے کر تا حرم شریف کی مشکبار فضاؤں میں جا پہنچا۔ جب شام ہوئی اور رات نے اپنے پر پھیلا دیئے تو دن بھر کے تھکے ماندے لوگ بسترِ آرام پر خواب خرگوش کے مزے لینے لگے ، محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے سر شار دل والے عبادت گزاروں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں آہ وزاری کرنا شروع کردی ۔ میں بھی اپنے پاک پرودرگارعَزَّوَجَلَّ کے پیارے گھر” خانۂ کعبہ” کاطواف کرنے لگا ۔ ایک کنیز بھی طواف کر رہی تھی اوراس کی زبان پر چند عربی اشعار جاری تھے، جن کا مفہوم کچھ اس طرح ہے:
”محبت نے پوشیدہ رہنے سے انکار کیا اور کتنی ہی مرتبہ میں نے اسے چھپایا مگر وہ ظاہر ہوگئی پھر اس نے میرے ہی پاس ڈیرہ ڈال لیا اور مجھے اپنا مسکن بنا لیا۔ جب میرا شوق بڑھتا ہے تو میرا دل اسے یاد کرنے کی خو ب خواہش کرتا ہے اور جب میں اپنے حبیب کا قرب چاہتی ہوں تو وہ میرے قریب ہو جاتا ہے۔ اور وہ سامنے آتا ہے تو میں فنا ہو جاتی ہوں پھر اس کی وجہ سے اسی کے لئے زندہ ہو جاتی ہو ں اور وہ میری مدد کرتا ہے یہاں تک کہ میں خوب لطف محسوس کرتی ہوں اور کیف وسرور سے جھومنے لگتی ہوں ۔”

حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں:میں نے کہا :” اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی ! تجھے خوف نہیں آتا کہ ایسے بابر کت مکان میں اس طر ح کا کلام کر رہی ہے؟” وہ میری طرف متوجہ ہوئی اوراس مفہوم کے چند اشعارپڑھے:
”اگر اس سے ملاقات کا معاملہ نہ ہوتا تو تُو مجھے پُرسکون نیند سے دور نہ دیکھتا ،جب وہ مل گیا تو اس نے مجھے وطن سے بہت دورکر دیا جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے، میں اسے پانے سے ڈرتی ہوں لیکن اس کی محبت مجھے شوق دلاتی ہے۔”
پھرپوچھا:”اے جنید!تُو کعبہ کا طواف کر رہا ہے یاپھر ربِّ کعبہ کا ؟” میں نے کہا :” خانۂ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں ۔” کنیز نے اپنا سر آسمان کی طرف اُٹھایا اور کہا : ”اے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ! تیرے لئے پاکی ہے ، تو پاک ہے تو نے جیسا چاہا اپنی مخلوق کو پیدا فرمایا، تیری حکمتیں بہت عظیم ہیں ، یہ لوگ تو پتھروں جیسے ہیں جن کی نظر صرف مخلوق تک محدود ہے۔پھر کچھ اشعار پڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے:
”لوگ قرب الٰہی عَزَّوَجَلَّ پانے کے لئے طواف کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ ان کے دل چٹان سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں، وہ چَٹْیَل میدانوں میں راستہ بھٹک کر اپنی پہچان بھی کھو بیٹھے اور یہ گمان کر لیا کہ ہم تو بہت مقرب ہو گئے ہیں، اگر وہ محبت میں خالص ہو جاتے تو ان کی اپنی صفا ت غائب ہو جاتیں اور ذِکر الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی بدولت حق سے محبت کی صفات ان میں ظاہر ہو جاتیں۔”
حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں: ”اس کا عارفانہ کلام سن کرمجھ پر غشی طاری ہوگئی، جب افاقہ ہوا تو میں نے اسے بہت تلاشا مگر کہیں نہ پایا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)

Exit mobile version