ایک عابد کی سخاوت اوریقین کامل
حضرت سیدنااحمد بن ناصح المصیصی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” ایک غریب شخص بہت عبادت گزاراور کثیرالعیال تھا۔ گھر کا خرچ وغیرہ اس طرح چلتا کہ گھر والے اُون کی رسیاں بناتے اوروہ انہیں فروخت کر کے کھانے پینے کا سامان خریدلاتا، جتنا مل جاتا اسی کو کھاکر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتے ۔”
حسبِ معمول ایک مرتبہ وہ نیک شخص اُون کی رسیّاں بیچنے بازار گیا۔ جب رسیّاں بِک گئیں تووہ گھر والو ں کے لئے کھانے کا سامان خریدنے لگا۔اتنے میں اس کا ایک دوست اس کے پاس آیا اور کہا :” میں سخت حاجت مند ہوں، مجھے کچھ رقم دے دو۔”اس رحم دل عبادت گزار شخص نے وہ ساری رقم اس غریب حاجت مندسائل کو دے دی اور خود خا لی ہاتھ گھر لوٹ آیا۔
جب گھر والو ں نے پوچھا:” کھانا کہاں ہے ؟”تو اس نے جواب دیا:” مجھ سے ایک حاجت مند نے سوال کیا وہ ہم سے زیادہ حاجت مند تھا لہٰذا میں نے ساری رقم اس کو دے دی ۔”گھر والو ں نے کہا :” اب ہم کیا کھائیں گے؟ہمارے پاس تو گھر میں کچھ بھی نہیں۔” اس نیک شخص نے گھر میں نظر دوڑائی تو اسے ایک ٹو ٹا ہوا پیالہ اور گھڑا نظر آیا۔اس نے وہ دو نوں چیزیں لیں اور بازار کی طر ف چل دیا اس اُمید پرکہ شاید انہیں کوئی خرید لے اور میں کچھ کھانے کا سامان لے آؤں ۔
چنانچہ وہ بازار پہنچا لیکن کسی نے بھی اس سے وہ ٹو ٹا ہوا پیالہ اور گھڑا نہ خریدا۔اتنے میں ایک شخص گزرا جس کے پاس ایک خراب پھولی ہوئی مچھلی تھی،مچھلی والے نے کہا :” تُو میرا خراب مال اپنے خراب مال کے بدلے خرید لے یعنی یہ ٹو ٹا ہوا پیالہ اور گھڑا مجھے دے دے اور مجھ سے یہ پھولی ہوئی خراب مچھلی لے لے ۔” اس عا بد شخص نے یہ سود ا منظور کرلیا اور خراب مچھلی لے کر گھر پلٹ آیا اور گھر والوں کے حوالے کر دی۔
جب انہوں نے اس مچھلی کو دیکھا تو کہنے لگے: ”ہم اس بے کار مچھلی کا کیا کریں؟”اس عابد شخص نے کہا :” تم اسے بھون لو ہم اسے ہی کھالیں گے ،اللہ عزوجل کی ذات سے اُمید ہے کہ وہ مجھے رزق ضرور عطا کریگا ۔”چنانچہ گھر والوں نے مچھلی کو کاٹنا شرو ع کردیا ،جب اس کا پیٹ چاک کیا تو اس کے اند ر سے ایک نہایت قیمتی موتی نکلا ، گھر والوں نے اس عابد کو خبردی۔ اس نے کہا : ” دیکھو! اس موتی میں سورا خ ہے یانہیں۔ اگر سوراخ ہے تویہ کسی کااستعمالی موتی ہوگا اور ہمارے پاس یہ امانت ہے ۔اگر اس میں سوراخ نہیں تو پھر یہ رزق ہے جسے اللہ ربّ العزت عزوجل نے ہمارے لئے بھیجا ہے۔ ”جب اس موتی کو دیکھا گیا تو اس میں سوارخ وغیرہ نہیں تھا ،وہ کسی کا استعمالی موتی نہیں تھا۔ ان سب نے اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا ۔
پھر جب صبح ہوئی تو وہ عا بدشخص اس موتی کو لے کر جو ہر ی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا:” اس موتی کی کتنی قیمت
ہوگی؟” جب جوہری نے وہ موتی دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں او روہ حیران ہو کر کہنے لگا:” تیرے پاس یہ موتی کہاں سے آیا ہے ؟” اس نیک آدمی نے جواب دیا :” ہمیں اللہ ربّ العزت عزوجل نے یہ رزق عطا فرمایا ہے۔” جو ہری نے کہا:” یہ تو بہت قیمتی موتی ہے اور میں تو اس کی صرف تیس ہزار (درہم) قیمت ادا کر سکتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اس کی مالیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تم ایسا کرو کہ فلاں جو ہری کے پاس چلے جاؤ وہ تمہیں اس کی پوری قیمت دے سکے گا۔”
چنانچہ وہ نیک شخص اس موتی کو لے کر دوسرے جوہری کے پاس پہنچا ۔جب اس نے قیمتی موتی دیکھا تو وہ بھی اسے دیکھ کر حیران رہ گیا او رپوچھا : ”یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟” ا س عا بد نے وہی جواب دیاکہ یہ ہمیں اللہ عزوجل کی طرف سے رزق عطا کیا گیا ہے ۔”جوہری نے کہا :” اس کی قیمت کم از کم ستر ہزار (درہم) ہے ، مجھے تو اس شخص پر افسوس ہو رہا ہے جس نے تمہیں اتنا قیمتی موتی دیاہے بہرحال ستر ہزاردرہم لے لو او ریہ موتی مجھے دے دو ۔
میں تمہارے ساتھ دو مزدور بھیجتا ہوں، وہ ساری رقم اٹھا کر تمہارے گھر تک چھوڑ آئیں گے۔چنانچہ اس جوہری نے دو مزدوروں کو درہم دے کر اس نیک شخص کے ساتھ روانہ کردیا۔ جب وہ عابد اپنے گھر پہنچا تو اس کے پاس ایک سائل آیا اور اس نے کہا:” مجھے اس مال میں سے کچھ مال دے دو جو تمہیں اللہ عزوجل نے عطا کیا ہے ۔”
تو اس نیک شخص نے کہا:” ہم بھی کل تک تمہاری طر ح محتاج او رغریب تھے ۔یہ لو تم اس میں سے آدھا مال لے جاؤ۔ پھر اس نے مال تقسیم کرنا شرو ع کردیا۔ یہ دیکھ کر اس سائل نے کہا : ”اللہ عزوجل تمہیں برکتیں عطا فرمائے، میں تواللہ عزوجل کا ایک فرشتہ ہوں، مجھے تمہاری آزمائش کے لئے بھیجا گیا تھا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو! یہ حقیقت ہے کہ جو شخص کسی کی مدد کرتا ہے اللہ عزوجل اس کی مدد کرتا ہے۔ دوسروں کا خیرخواہ کبھی نامراد نہیں ہوتا، جو کسی پر رحم کرتا ہے اللہ عزوجل اس پر رحم کرتا ہے ، اور صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ برکت ہوتی ہے اور جولوگ مال کی محبت دل میں نہیں بٹھاتے وہی لوگ سخاوت جیسی نعمت سے حصہ پاتے ہیں۔جو شخص اللہ عزوجل سے اُمید واثق رکھے اللہ عزوجل اس کو کبھی رُسوا نہیں فرماتا۔)اس حکایت میں ایک نیک شخص کی سخاوت اور یقین کا مل کی عظیم مثال موجود ہے کہ اس نے ایک سائل کو آدھا مال دینا منظور کرلیا او ردو سرا یہ کہ خود اپنے لئے کھانے کی شدید حاجت کے باوجود اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اپنا حصہ اپنے دوسرے حاجت مندبھائی کودے دیا ،پھر اللہ عزوجل نے بھی اسے ایسا نوا زا اور ایسی جگہ سے رزق عطا کیا جہاں سے اس کاوہم وگمان بھی نہ تھا۔ اللہ عزوجل ہمیں ہر وقت اپنی رحمتِ کا ملہ کا سایہ عطا فرمائے رکھے اور سخاوت
وایثار اوریقینِ کا مل کی عظیم نعمتیں عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم۔ مذکورہ حکایت کی طرح کاایک واقعہ کتب حدیث میں موجود ہے۔چنانچہ حضورنبی کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بیان فرمایاکہ، ” بنی اسرائیل میں تین شخص تھے۔ایک برص(کوڑھ) کا مریض، دوسرا گنجا ،تیسرا اندھا ۔ اللہ عزوجل نے ان کی آزمائش کے لئے ایک فرشتہ (بشری صورت میں) ان کے پاس بھیجا۔پہلے وہ برص کے مریض کے پاس آیااوراس سے پوچھا:”تجھے سب سے زیادہ کون سی چیزمحبوب ہے؟”اس نے کہا:”مجھے اچھارنگ اوراچھی جِلد پسند ہے اور میری خواہش ہے کہ جس بیماری کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں وہ مجھ سے دورہوجائے۔” فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیراتواس کی وہ بیماری جاتی رہی، اس کا رنگ بھی اچھا ہو گیا اور جِلد بھی اچھی ہو گئی۔” فرشتے نے پھر اس سے پوچھا: ” تجھے کو ن سا ما ل زیادہ پسند ہے ؟”اس نے کہا:” مجھے اونٹنی پسند ہے ۔” اسی وقت اسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی، اور فرشتے نے دعادی : ”اللہ تعالیٰ تجھے اس میں برکت دے ۔”
پھروہ فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا :” تجھے کون سی شے سب سے زیادہ محبوب ہے ؟”اس نے کہا: ”مجھے خوبصورت بال زیادہ پسند ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جس چیز کی وجہ سے لوگ مجھ سے گِھن کھاتے ہیں وہ دور ہوجائے۔” فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی وہ شے جاتی رہی جس سے لو گ گِھن کھاتے تھے اور اس کے سر پر بہترین بال آگئے۔”فرشتے نے پوچھا: ”تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے ؟”اس نے کہا:” مجھے گائے بہت پسند ہے ۔ ”چنانچہ اسے ایک گابھن گائے دے دی گئی۔ فرشتے نے اس کے لئے دعا کی :” اللہ تعالیٰ تیرے لئے اس میں برکت دے۔”
پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے کہا :” تجھے سب سے زیادہ کون سی چیز محبوب ہے ؟”اس نے کہا: ”مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ عزوجل میری بینائی مجھے واپس کردے تاکہ میں لوگو ں کو دیکھ سکوں۔”فرشتے نے اس پرہاتھ پھیرا تو اس کی آنکھیں روشن ہو گئیں ۔”پھر اس سے پوچھا :” تجھے کون سا مال زیادہ محبوب ہے ؟” اس نے کہا :” مجھے بکریا ں(بہت زیادہ محبوب ہیں )۔” چنانچہ اسے ایک گابھن بکری دے دی گئی ۔
اب اونٹنی ،گائے اور بکری نے بچے دینا شروع کئے۔ کچھ ہی عرصے میں ان کے جانور اِتنے بڑھے کہ ایک کے اونٹوں ، دوسرے کی گائیوں اور تیسرے کی بکریوں سے ایک پوری وادی بھر گئی ۔پھر فرشتہ اس برص کے مریض کے پاس اس کی پہلی صورت یعنی برص کی حالت میں آیا اور اس سے کہا:” میں ایک غریب و مسکین شخص ہوں، میرے پاس زادِراہ ختم ہوگیا ہے اور واپس جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی مگر اللہ عزوجل کی رحمت سے اُمید ہے اور مَیں تیری مدد کا طلب گار ہوں۔ جس ذات نے تجھے خوبصورت رنگ ،اچھی جِلد اور مال عطا کیامیں تجھے اس کا واسطہ دیتا ہوں کہ آج مجھے ایک اُونٹ دے دے تا کہ میں اپنی منزل تک پہنچ
سکوں۔” یہ سن کر اس نے انکار کرتے ہوئے کہا :” میرے حقوق بہت زیادہ ہیں۔” توفرشتے نے کہا : ”مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں تجھے جانتا ہوں، کیا تُووہی نہیں جس کو کوڑھ کی بیماری لاحق تھی اور لوگ تجھ سے نفرت کیا کرتے تھے اور تو فقیر و محتاج تھا ،پھر اللہ عزوجل نے تجھے مال عطا کیا ۔” اس نے کہا : ”مجھے تو یہ سارا مال ورا ثت میں ملا ہے اور نسل در نسل یہ مال مجھ تک پہنچا ہے۔” فرشتے نے کہا : ”اگر تُو اپنی اس بات میں جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ایسا ہی کر دے جیسا تُو پہلے تھا ۔”
پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت میں آیااور اس سے بھی وہی بات کہی جو برص والے سے کہی تھی ۔اس نے بھی برص والے کی طر ح جواب دیا ۔ فرشتے نے کہا: ”اگر تُو اپنی بات میں جھوٹا ہے تو اللہ عزوجل تجھے تیری سابقہ حالت پر لوٹا دے۔”پھر فرشتہ اندھے کے پاس اُس کی پہلی حالت میں آیااور کہا : ”میں ایک مسکین مسافر ہو ں اور میرا زادِراہ ختم ہو چکا ہے۔ آج کے دن میں اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا مگر اللہ عزوجل کی ذات سے اُمید ہے اور اس کے بعد مجھے تیرا آسرا ہے ۔ میں اسی ذات کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں جس نے تجھے آنکھیں عطا فرمائیں کہ مجھے ایک بکری دے دے تاکہ میں اپنی منزل تک پہنچ سکوں ۔” تو وہ کہنے لگا:” میں تو پہلے اندھا تھا پھر اللہ عزوجل نے مجھے آنکھیں عطا فرمائیں تو جتنا چاہے اس مال میں سے لے لے اور جتنا چاہے چھوڑ دے۔” خدا عزوجل کی قسم! تُو جتنا مال اللہ عزوجل کی خاطر لینا چاہے لے لے ،مَیں تجھے مشقت میں نہ ڈالوں گا (یعنی منع نہ کروں گا )۔”یہ سن کر فرشتے نے کہا : ”تیرا مال تجھے مبارک ہو ،یہ سارا مال تُو اپنے پاس ہی رکھ۔ تم تینوں شخصوں کاامتحان لیا گیا تھا ،تیرے لئے اللہ عزوجل کی رضا ہے اور تیرے دونوں دوستوں(یعنی کوڑھی اور گنجے)کے لئے اللہ عزوجل کی ناراضگی ہے۔”
(بخاری شریف ،کتاب احادیث الانبیاء، باب حدیث ابرص واعمیٰ واقرع۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۳۴۶۴،ص۲۸۲،۲۸۳)
اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں مال کے وبال اور اپنی ناراضگی سے بچا کر اپنی دائمی رضا عطا فرما ،اورہم سے ایسا راضی ہو جا کہ پھر کبھی نا راض نہ ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
؎ عفو کر اور سدا کے لئے راضی ہو جا گرکرم کردےتوجنت میں رہوں گا یا رب عزوجل !