عیدین کا بیان
عیدین ( یعنی عید و بقر عید) کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ اُنہیں پر جن پر جمعہ واجب ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت ہے۔ اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہو ا اور عیدین میں نہ پڑھاتو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے ہے اور عیدین کا نماز کے بعد اگر عیدین کا خطبہ نماز سے پہلے پڑھ لیا تو بُرا کیا مگر نماز ہوگئی، لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اِعادہ نہیں اور عیدین میں نہ اَذان ہے نہ اِقامت۔ صرف دو باراِتنا کہنے کی اجازت ہے: اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ ۔ (1 )
( قاضی، عالمگیری، درمختار وغیرہ)
مسئلہ۱: بلاوجہ عید کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے۔ (جوہرہ نیرہ و بہار)
مسئلہ۲: گاؤں میں عید کی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔ (درمختار و بہار)
مسئلہ۳: عید کے دن یہ باتیں مستحب ہیں حجامت بنوانا ،ناخن کٹوانا، غسل کرنا، مسواک کرنا، اچھے کپڑے پہننا، نیا ہو تو نیا ورنہ دُھلا، انگوٹھی (2 ) پہننا، خوشبو لگانا، صبح کی نماز محلہ کی مسجد میں پڑھنا، عیدگاہ جلد چلا جانا، نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا، عیدگاہ کو پیدل جانا، دوسرے راستہ سے واپس آنا، نماز کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا، تین پانچ سات یا
کم و بیش مگر طاق ہوں ، کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھا لے نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوا۔ لیکن اگر عشاء تک نہ کھایا تو عتاب ( 1) کیا جائے گا۔ (ردالمحتار وغیرہ) خوشی ظاہر کرنا، کثرت سے صدقہ دینا، عیدگاہ کو اطمینان اور وقار سے اور نیچی نگاہ کیے جانا، آپس میں مبارک باد دینا، یہ سب باتیں مستحب ہیں ۔
مسئلہ۴: راستہ میں بلند آواز سے تکبیر نہ کہے۔ ( درمختار و ردالمحتار و بہار)
مسئلہ۵: عیدگاہ سواری پر جانے میں حر َج نہیں مگر جس کو پیدل جانے پر قدرت ہو، اُس کے لیے پیدل جانا افضل ہے اور واپسی میں سواری پرآنے میں حر َج نہیں ۔ (جوہرہ، عالمگیری، بہار)
مسئلہ۶: عیدین کی نماز کا وقت اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب کہ سورج ایک نیزہ کے برابر اُونچا ہوجائے اور ضحوئہ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک رہتا ہے لیکن عید الفطر میں دیر کرنا اور عیدالاضحی میں جلد پڑھ لینا مستحب ہے اور سلام پھیرنے کے پہلے زوال ہوگیا تو نماز جاتی رہی۔ (ہدایۃ، قاضی خان، درمختار) زوال سے مراد نصف النہار شرعی ہے جس کا بیان وقت کے بیان میں گزرا۔ (بہار)
نمازِ عید کا طریقہ
یہ ہے کہ دو رکعت واجب عیدالفطر یا عید الاضحی کی نیت کرکے کانوں تک ہاتھ اُٹھائے اوراَللّٰہُ اَکْبَرکہہ کے ہاتھ باندھ لے پھر ثنا ء پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائے اوراَللّٰہُ اَکْبَر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائے اوراَللّٰہُ اَکْبَر کہہ کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ
اُٹھائے اوراَللّٰہُ اَکْبَرکہہ کر ہاتھ باندھ لے۔ یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے اس کے بعد دو تکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے اِس کو یوں یاد رکھے کہ جہاں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لیے جائیں اور جہاں پڑھنا نہیں وہاں ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں جب چوتھی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے تو امام اَعُوْذُ بِاللّٰہ، بِسْمِ اللّٰہ آہستہ پڑھ کر زور سے اَلْحَمْداور سورۃ پڑھے پھر رکوع کرکے ایک رکعت پوری کرے جب دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو پہلے اَلْحَمْد اور سورۃ پڑھے پھر تین بار کان تک ہاتھ لے جا کر اَللّٰہُ اَکْبَر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اُٹھائے اَللّٰہُ اَکْبَر کہتا ہوا رکوع میں جائے، اس سے معلوم ہوگیا کہ عید میں زائد تکبیر چھ ہوئیں تین تکبیریں پہلی رکعت میں قرأ ت سے پہلے اور تکبیر تحریمہ کے بعد اور تین تکبیریں دوسری رکعت میں قرأت کے بعد اور رکوع کی تکبیر سے پہلے اِن چھئیوں تکبیروں میں ہاتھ اُٹھائے جائیں گے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان تین تسبیح پڑھنے کے برابر سکتہ کرے اور عیدین میں مستحب یہ ہے کہ پہلی ر کعت میں اَلْحَمْدکے بعد سورۃ جمعہ پڑھے اور دوسری میں سورۃ منافقون یا پہلی میں سَبِّحِ اسْمَ اور دوسری میں هَلْ اَتٰىكَ (درمختار و بہار)
نماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے اور جمعہ کے خطبے میں جو چیزیں سنت ہیں وہ عیدین کے خطبے میں بھی سنت ہیں اور جو باتیں جمعہ کے خطبہ میں مکروہ ہیں وہ عیدین کے خطبے میں بھی مکروہ ہیں ۔ صرف دو باتوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جمعہ کے پہلے خطبہ سے قبل خطیب کا بیٹھنا سنت تھا اور اس میں نہ بیٹھنا سنت ہے دوسرے یہ کہ اس میں پہلے خطبہ سے قبل نو بار اور دوسرے خطبہ سے قبل سات بار اور منبر سے اُترنے کے پہلے چودہ باراَللّٰہُ اَکْبَر کہنا سنت ہے اور جمعہ میں نہیں ۔ (عالمگیری، درمختار و بہار)
مسئلہ۷: پہلی رکعت میں امام کے تکبیر کہنے کے بعد کوئی شامل ہوا تو اُسی وقت تین تکبیریں کہہ لے اگرچہ امام نے قرأت شروع کردی ہو۔ (عالمگیری، درمختار)
مسئلہ۸: امام کو رکوع میں پایا تو پہلے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہے پھر دیکھے کہ اگر عید کی تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پالے گا تو عید کی تکبیریں بھی کہے اور تب رکوع میں شامل ہو اور اگر یہ سمجھے کہ عید کی تکبیریں کہتے کہتے امام رکوع سے سر اُٹھالے گا تو اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ کر رکوع میں شریک ہوجائے اور رکوع میں بلا ہاتھ اُٹھائے عید کی تکبیریں کہے پھر اگر اُس نے رکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اُٹھالیا تو امام کے ساتھ سر اُٹھائے اور باقی تکبیریں چھوڑ دے کہ یہ ساقط ہوگئیں ۔ اب اُن کو نہ کہے گا۔ ( عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ۹: دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اس وقت کہے جب اپنی چھٹی ہوئی رکعت پورا کرنے کھڑا ہوا۔ (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ۱۰: امام کے رکوع سے اُٹھنے کے بعد شامل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ جب اپنی چھٹی ہوئی رکعت پڑھے اس وقت کہے۔ (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ۱۱: آخر رکعت میں سلام پھیرنے سے پہلے شریک ہوا تو اپنی دونوں رکعتیں تکبیروں کے ساتھ پوری کرے۔ (عالمگیری وغیرہ)
عید، بقرعید کی نماز کا وقت اور مدت
مسئلہ۱۲: کسی عذر کی وجہ سے عید کے دن نماز نہ ہوسکی ( مثلاً سخت بارش ہوئی یا اَبر ( 1) کے
سبب چاند نہیں دیکھا گیا اور گواہی ایسے وقت گزری کہ نماز نہ ہوسکی یا اَبر تھا اورنماز ایسے وقت ختم ہوئی کہ زوال ہوچکا تھا) تو دوسرے دن پڑھی جائے اور دوسرے دن بھی نہ ہوئی تو عید الفطر کی نماز تیسرے دن نہیں ہوسکتی ا ور دوسرے دن بھی نماز کا وہی وقت ہے، جو پہلے دن تھا یعنی ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے نصف النہار شرعی تک اور اگر بلا عذر عید الفطر کی نماز پہلے دن نہ پڑھی تودوسرے دن نہیں پڑھ سکتے۔ (قاضی خان، عالمگیری، درمختار وبہار)
مسئلہ۱۳: عید الاضحی تمام اَحکام میں عید الفطر کی طرح ہے صرف بعض باتوں میں فرق ہے اِس میں مستحب یہ ہے کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے اگرچہ قربانی نہ کرے اور کھالیا تو کراہت نہیں اور راستہ میں بلند آواز سے تکبیر کہتا جائے اور عیدالاضحی کی نماز عذر کی وجہ سے بارہویں تک بلا کراہت مؤخر کرسکتے ہیں ، بارہویں کے بعد پھر نہیں ہوسکتی اور بلا عذر دسویں کے بعد مکروہ ہے۔ (قاضی خان، عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ۱۴: قربانی کرنی ہو تو مستحب یہ ہے کہ پہلی سے دسویں ذی الحجہ تک نہ حجامت بنوائے نہ ناخن کٹوائے (ردالمحتار وبہار) بعد نمازِ عید مصافحہ ( 1) و معانقہ ( 2) کرنا جیسا کہ عموماً مسلمانوں میں رائج ہے بہتر ہے۔ (وشاح الجید و بہار شریعت)
تکبیر تشریق کیا ہے ؟
تکبیر تشریق نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک پانچوں وقت کی ہر فرض نماز کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ہو، ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب
ہے اور تین بار کہنا افضل ہے، اِسے تکبیر تشریق کہتے ہیں اور وہ یہ ہیں : اَللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ اَکْبَر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ اَکْبَروَلِلّٰہِ الْحَمْد۔ (تنویر الابصار و بہار وغیرہ)
مسئلہ۱۵: تکبیر تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراً واجب ہے یعنی جب تک کوئی ایسا فعل نہ کیا ہو کہ اس نماز پر بنا نہ کرسکے اگرمسجد سے باہر ہوگیا یا قصداً وضو توڑ دیا یا کلام کیا اگرچہ سہواً تو تکبیر ساقط ہوگئی اور بلا قصد وضو ٹوٹ گیا، کہہ لے۔ (ردالمحتار ودرمختار وبہار)
تکبیر تشریق کس پر واجب ہے اور کب واجب ہے ؟
مسئلہ۱۶: تکبیر تشریق اس پر واجب ہے جو شہر میں مقیم ہو یا جس نے مقیم کی اِقتداء کی اگرچہ وہ اِقتداء کرنے والا عورت یا مسافر یا گاؤں کا رہنے والا ہو اوریہ لوگ اگر مقیم کی اِقتداء نہ کریں تو اُن پر واجب نہیں ۔ (درمختار و بہار)
مسئلہ۱۷: تکبیر تشریق ان اَیام میں جمعہ کے بعد بھی واجب ہے اور نفل و سنت ووتر کے بعد نہیں البتہ نماز عید کے بعد بھی کہہ لے۔ (درمختار)
________________________________
1 – نماز ِبا جماعت تیار ہے۔
2 – کس چیز کی اور کیسی انگوٹھی جائز ہے؟ مسئلہ :مرد کے لیے صرف چاندی کی وزن میں ساڑھے چار ماشہ سے کم ایک نگ کی ایک انگوٹھی پہننی جائز ہے اس کے سوا کسی قسم کی کوئی انگوٹھی جائز نہیں۔ لوہا، پیتل اور دھاتوں کی انگوٹھی مردوں اور عورتوںسب کو ناجائز ہے بلکہ عورتوں کو سونے چاندی کے سوا لوہے، تانبے، پیتل وغیرہ کا ہر زیور ناجائز ہے۔ ۱۲منہ