دوبزرگ اوردو پرندے

حکایت نمبر311: دوبزرگ اوردو پرندے

حضرتِ سیِّدُنا خَلَف بن تَمِیم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم سے منقول ہے، ایک مرتبہ دو عظیم بزرگ حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم اور حضرتِ سیِّدُناشَقِیق بَلْخِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما مکہ مکرمہ زَادَ ھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً پہنچے۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے حضرتِ سیِّدُناشَقِیق علیہ رحمۃاللہ الرفیق سے پوچھا :” وہ کون سا پہلا واقعہ ہے جس کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ عظمت و بزرگی نصیب ہوئی ؟”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ایک مرتبہ میں جنگل میں تھا اچانک مجھے ایک پرندہ نظر آیا جس کے پر ٹوٹے ہوئے تھے،میں نے اپنے دل میں کہا: یہ پرندہ اپنی غذا کیسے حاصل کرتا ہوگا؟ بس اس خیال کے آتے ہی میں وہیں کھڑا ہوگیا اور ارادہ کیا کہ آج یہ دیکھ کرجاؤں گا کہ اس پرندے کو غذا کہا ں سے ملتی ہے ؟ میں وہیں کھڑا سوچتا رہا۔ کچھ دیر بعد ایک پرندہ اپنی چونچ میں ایک ٹِڈی پکڑے ہوئے وہاں آیا اوراس ٹُو ٹے پروں والے پرندے کے منہ میں وہ ٹڈی ڈال کر واپس اڑگیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس شانِ رزّاقی پر میں عَش عَش کراٹھا اور اپنے نفس سے کہا :” اے نفس! جس خدائے بزرگ وبَر تر ،خالق ومالک نے صحیح وسالم پرندے کے ذریعے جنگل وبیابان میں اس پر ٹوٹے ہوئے پر ندے کو رزق عطا فرمایا وہ پر وردگار عَزَّوَجَلَّ مجھے رزق عطافرمانے پر قادر ہے، چاہے میں کہیں بھی ہوں۔” بس اس دن سے میں نے تمام دنیوی مشاغل ترک کردیئے اور عبادتِ الٰہی میں مصروف ہوگیا اور آج آپ کے سامنے ہوں۔”
یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے فرمایا:” اے شَقِیق علیہ رحمۃ اللہ اللطیف ! تم اس پر ندے کی طر ح کیوں نہ ہوگئے جوتندرست تھا اور بیمار پرندے تک اس کا رزق پہنچا رہا تھا۔ اگر تم اس جیسے ہوتے تو تمہارے لئے بہت اچھا تھا، کیا تم نے شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا یہ فرمانِ تقرب نشان نہیں سنا :”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہترہے۔ ”

(صحیح البخاری،کِتَابُ الزَّکَاۃِ،بَاب لَا صَدَقَۃَ إِلَّا عَنْ ظَہْرِ غِنًی،الحدیث۱۴۲۷،ص۱۱۲)

اے شَقِیق علیہ رحمۃ اللہ اللطیف!مومن کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اُمور میں اُس مرتبے ومقام کو پسند کرتا ہے جو اعلیٰ ونفیس ہو یہاں تک کہ وہ نیکوکاروں کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے ۔”حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَ دْہَم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم کی حکمت بھری باتیں سن کر حضرتِ سیِّدُنا شَقِیق بَلْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہاتھ پکڑا اور بڑی محبت سے بوسہ دیتے ہوئے کہا: ”حضور! آج سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ استاذاور میں شاگرد ہوں ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خدائے بزرگ وبَر تر تمام جہانوں کا پالنے والااپنی تمام مخلوق کو رزق عطا فرماتا ہے۔ جسے جیسے چاہتاہے رزق دیتا ہے ۔ انسان کو اس معاملے میں توکُّل کرنا چاہے کیونکہ جس کے مُقدَّر میں جو ہے وہ اسے ضرور مل کر رہے گا ۔ بس انسان اپنی سی کو شش کرتا رہے، رزقِ حلال کے لئے تگ ودو کرتا رہے لیکن یہ خیال ضرور رکھے کہ فرائض وواجبات کو ہر گز ہرگز ترک نہ کرے ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔ رزق وہی اچھا جس کی وجہ سے اعمالِ صالحہ میں تقویت ملے، اگرمعاملہ برعکس ہویعنی مال و کاروبارکی وجہ سے اعمالِ دینیہ میں کمی ہو رہی ہو تو ایسا مال وکا روبار کچھ کام نہ آئے گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعاہے کہ وہ ہمیں رزق حلال عطا فرمائے ،دنیوی اور اُخروی زندگی میں سلامتی عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)

Exit mobile version