ڈاڑھی ، مونچھ
(۱)’’ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِینَ أَوْفِرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَفِیْ رِوَایَۃِ اَنْھِکُو الشَّوارِبَ واعفُوا اللِّحَی‘‘۔ (1)
حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو (اس طرح کہ) داڑھیوں کو بڑھائو اور مونچھوں کو کترائو اور ایک روایت میں ہے مونچھوں کو خوب کم کرو اور داڑھیوں کو بڑھائو ۔ (بخاری ، مسلم)
(۲)’’عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَمْ یَأْخُذْ مِنْ شَارِبِہِ فَلَیْسَ مِنَّا‘‘۔ (2)
حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا جو اپنی مونچھ نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ ( یعنی ہمارے طریقے کے خلاف ہے )۔ (ترمذی، نسائی)
(۳)’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحَی خَالِفُوا الْمَجُوسَ‘‘۔ (3)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ مونچھیں کٹائو اور داڑھیاں بڑھائو ( اس طرح) مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ (مسلم شریف)
ضروری انتباہ:
(۱) …آج کل مسلمانوں نے داڑھی میں طرح طرح کا فیشن نکال رکھا ہے ۔ اکثر لوگ بالکل صفایا
کرادیتے ہیں۔ کچھ لوگ صرف ٹھوڑی پر ذرا سی رکھتے ہیں۔ بعض لوگ ایک دو انگل داڑھی رکھتے ہیں اور اپنے کو متبع شریعت سمجھتے ہیں، حالانکہ داڑھی کا بالکل صفایا کرانے والے اور داڑھی کو ایک مشت سے کم رکھنے والے دونوں شریعت کی نظر میں یکساں ہیں۔ بہارِ شریعت جلد شانزدہم ص:۱۹۷ میں ہے ۔ داڑھی بڑھانا سنن انبیائے سابقین سے ہے ۔ مونڈانا یا ایک مشت سے کم کرانا حرام ہے ۔ (1)
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ اشعۃ اللمعات جلد اول، ص: ۲۱۲ میںفرماتے ہیں کہ :
’’حلق کردن لحیہ حرام ست وروش افرنج وہنود وجو القیان ست کہ ایشان را قلندریہ گویند وگذاشتن آن بقدر قبضہ واجب ست وآنکہ آں را سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک در دین ست، یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت ست چنانکہ نماز عید راسنت گفتہ اند‘‘۔ (2)
یعنی داڑھی منڈانا حرام ہے اور انگریزوں ، ہندؤوں اور قلندریوں کا طریقہ ہے ۔ اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے اور جن فقہاء نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا تو یہاں سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے یا اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ نمازعید کو مسنون فرمایا ( حالانکہ نماز عید واجب ہے )۔
اور درمختار مع ردالمحتار جلد دوم ص۱۱۶، رد المحتار جلد دوم ص۱۱۷، بحرالرائق جلد دوم ص:۲۸۰، فتح القدیر جلد دوم ص:۲۷۰ اور طحطاوی ص:۴۱۱ میں ہے :
’’وَاللَّفْظُ لِلطَّحْطَاوِی اَلأَخْذُ مِنَ اللِّحْیَۃِ وَہُوَ دُوْنَ ذَلِکَ (أَی الْقَدْرُ الْمَسْنُوْنُ وَھُوَ الْقَبْضَۃُ) کَمَا یَفْعَلُہُ بَعْضُ الْمَغَارِبَۃِ، وَمُخَنَّثَۃُ الرِّجَالِ لَمْ یُبِحْہُ أَحَدٌ، وَأَخْذُ کُلِّہَا فِعْلُ
یعنی داڑھی جب کہ ایک مشت سے کم ہو تو اس کو کاٹنا جس طرح کہ بعض مغربی اور زنانے زنخے کرتے ہیں کسی کے نزدیک حلال نہیں ا ور کل داڑھی کا صفایا کرنا یہ کام تو ہندوستان کے یہودیوںاور ایران
یَہُودِ الْہِنْدِ وَمَجُوسِ الْأَعَاجِمِ‘‘۔ (1)
کے مجوسیوں کا ہے ۔
(۲) …حد شرع یعنی ایک مشت سے کچھ زائد داڑھی رکھنا جائز ہے لیکن ہمارے آئمہ و جمہور علماء کے نزدیک اس کا طول فاحش کہ جو حدِ تناسب سے خارج اور باعث انگشت نمائی ہو مکروہ وناپسندیدہ ہے ۔ () (لمعۃ الضحی)
٭…٭…٭…٭