د ینِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے
حضرت سیدنا علی بن احمد بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا ابو بکر شبلی علیہ رحمۃ اللہ الولی کو یہ فرماتے سنا:” میں ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے ملک شام جارہا تھا، راستے میں میری ملاقات ایک راہب (یعنی عیسائیوں کے عالم ) سے ہوئی ۔ وہ ایک گرجا (عبادت خانہ) میں تھا۔میں نے اس سے پوچھا :” تُو نے اپنے آپ کو لوگوں سے الگ تھلگ اس گرجا میں کیو ں قید کررکھا ہے ؟” اس راہب نے جواب دیا :” میں یہاں اکیلا اس لئے رہتاہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکوں اوردُنیوی مشاغل میری عبادت میں رکاوٹ نہ بنیں۔”میں نے پوچھا :” تُو کس کی عبادت کرتا ہے؟”اس نے جواب دیا : ” میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت کرتاہوں اورانہیں کے لئے اعمال صالحہ کرتاہوں ۔”
میں نے کہا :”کیا وجہ ہے کہ تُو معبودِ حقیقی اللہ عزوجل کی عبادت چھوڑ کر اس کے نبی علیہ السلام کی عبادت کرتا ہے حالانکہ عبادت کے لائق تو صرف اللہ عزوجل ہی کی ذات ہے ، معبودِ برحق تو صرف اللہ عزوجل ہی ہے پھر تُو حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کیوں کرتا ہے ؟”میری یہ بات سن کر اس راہب نے کہا: ”حضرت سیدنا عیسیٰ (علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) نے چالیس دن اور چالیس راتیں بغیر کھائے پئے گزار دیں ۔”
میں نے اس سے پوچھا :”اے راہب !جو شخص چالیس دن اورراتیں بغیر کھائے پئے بھوکا پیاسا گزاردے توکیا وہ معبود بن جاتاہے؟ ”راہب نے کہا :”ہاں !ایسا شخص واقعی عبادت کے لائق ہے ۔ ”
حضرت سیدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں،میں نے اس سے کہا: ”اے راہب !میں یہاں تیرے ساتھ رہتا ہوں تو شمار کرنا کہ میں کتنے دن تک بغیر کھائے پئے رہ سکتاہوں ۔” چنانچہ میں اس راہب کے ساتھ اس کے گرجا میں رہنے لگا۔ مَیں دن رات عبادتِ الٰہی عزوجل میں مشغول رہتا، نہ کچھ کھاتا نہ پیتا۔اس طرح جب چالیس دن اور چالیس راتیں گزر گئیں تو میں نے اس راہب سے کہا” اگر تُو چاہے تومیں مزیدکچھ د ن بغیر کھائے پئے گزار سکتا ہوں۔”راہب نے جب میری یہ حالت
دیکھی تو پوچھا:” تمہارا دین کون سا ہے ؟ ”میں نے کہا:” میں نبی آخر الزماں ، شہنشاہِ کون و مکاں ، والی ئدوجہاں ،رحمت عالمیاں حضرت محمد مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا اُمتی ہوں، مَیں ان کا ادنیٰ سا غلام ہوں اورہمارا دین ”اِسلام ”ہے ۔ ”
وہ راہب میرے پاس آیا اس نے عیسائیت سے توبہ کی اورکلمہ پڑھ کر دامنِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے وابستہ ہوگیا ۔پھر میں اسے اپنے ساتھ دمشق لے آیا اوروہاں کے لوگوں سے کہا: ”اے لوگو!اپنے اس نو مسلم بھائی کی خوب خیر خواہی کرنا اور اسے کسی قسم کی پریشانی نہ ہونے دینا۔ ”
میں چند دن دمشق رہا۔وہ شخص اب ہر وقت اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول رہتا،خوب مجاہدات کرتا۔پھرجب میں دمشق سے واپس آیا تو اسے اس حال میں چھوڑ کرآیاکہ اس کا شمار اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں ہونے لگا ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي الله تعالي عليه وسلم)