حکایت نمبر440: دانش مند اعرابی
حضرتِ سیِّدُنا علی بن محمدمَدَائِنِی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کا بیان ہے:ایک دن حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القدیر نے خلیفہ سلمان بن عبدالمَلِک سے کہا:” باہر ایک اعرابی آیا ہوا ہے جو بڑا فصیح کلام کرتا ہے۔” خلیفہ سلمان بن عبدالمَلِک نے کہا: ”اسے میرے پاس لے آؤ۔” اعرابی آیا توخلیفہ نے کہا: ”تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟” کہا:” اے امیر المؤمنین !میرا تعلق قبیلہ ”عبدُ القَیْس بن اَقْصٰی” سے ہے، میری باتیں بظاہر تلخ ہوں گی مگر ضبط سے کام لیا جائے توآپ کے لئے بہت مفید ہوں گی اگر اجازت ہو توکچھ عرض کروں ”؟ خلیفہ نے کہا:” اے اَعرابی! جو کہنا چاہتے ہوکہو۔” اعرابی کچھ اس طرح گویا ہوا : ” اے امیرالمؤمنین! بے شک آپ کے پاس ایسے لوگ بیٹھتے ہیں جنہوں نے اپنے دین کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالا اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی مول لے کر آپ کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ و ہ آپ سے تو ڈرتے ہیں لیکن آپ کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کاخوف ان کے پیشِ نظر نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی آخرت برباد کرکے دنیا کی عیش وعشرت حاصل کر لی ہے ،وہ دنیا سے اپنے آپ کوبچاتے ہیں لیکن آخرت سے جنگ کرتے ہیں۔ آپ اُس معاملے میں ان پر ہرگز اعتماد نہ کریں جس پراللہ ربُّ العِزَّت نے آپ کو ذمہ
دار بنایا ہے ۔اگر اِن کو اِقتدار مل گیا تویہ امانتوں کوہَڑ َپ کریں گے اور امت پر ظلم وجبر کریں گے۔ پھروہ جو بھی جُرم وظلم کریں گے اس کے بارے میں آ پ سے سوال ہوگا۔ اور اگرآپ ظلم وستم کریں گے تو اُن سے آپ کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔ اپنی آخرت کو برباد کرکے ان کی دنیا کی اصلاح نہ کیجئے، بے شک! لوگوں میں سب سے زیادہ خسارہ پانے والاوہ ہے جو کسی کی دنیا کے لئے اپنی آخرت برباد کرے۔”
خلیفہ نے کہا:”اے اَعرابی! بے شک تیری زبان کے وار تیری تلوار کے واروں سے کہیں زیادہ تیز ہیں ۔”اَعرابی نے کہا:” جی ہاں! امیرالمؤمنین! معاملہ ایسا ہی ہے لیکن اس میں آپ کا فائدہ ہے نقصان نہیں ۔”خلیفہ نے کہا :”کیا تیری کوئی حاجت ہے؟” کہا: ”مجھے عام لوگوں سے کوئی حاجت نہیں ،میں تو خدائے بزرگ وبرتر جَلَّ جَلَالُہٗ ہی کا محتاج ہوں۔” یہ کہہ کر وہ اَعرابی واپس چلا گیا۔ خلیفہ نے کہا :”تمام خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں۔ یہ بندہ بہترین نَسَبْ والا، مضبوط دل، زبان کا صحیح استعمال کرنے والا، نیت کا سچا اور متقی وپرہیز گار ہے ۔ایسے ہی سمجھ دار لوگ شرف وبزرگی پاتے ہیں ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ اسی طرح حضرت سیِّدُنا عامر بن عبداللہ بن زُبیررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے : ایک اَعرابی کو خلیفہ سلمان بن عبدالمَلِک نے بلایا اور کہا:”کچھ کلام کرو۔” اعرابی نے کہا:” میں کلام کروں گامگر اسے برداشت کیجئے گا،اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے ۔ ”خلیفہ نے کہا :”جب ہم ایسے شخص کی باتیں برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں جس سے خیرخواہی کی امید نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے فریب سے اَمن ہوتا ہے توتمہاری باتیں بھی برداشت کر لیں گے تم بے فکرہو کر جو کہنا چاہوکہو۔” کہا:” اے امیرالمؤمنین! جب آپ کے غضب سے امان مل گئی تو اب میں اس بارے میں اپنی زبان کھولوں گا جس کے متعلق لوگوں کی زبانیں آپ کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے حقوق اور آپ کے اپنے حقوق کے متعلق نصیحت کرنے سے گونگی ہیں ۔”اس کے بعد اعرابی نے وہی کلام کیا جو سابقہ روایت میں گزرا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)